فارغ التحصیل ڈاکٹروں کی اکثریت بالخصوص نوجوان ڈاکٹروں نے حکومت سے ’ایم ٹی آئی‘ آرڈیننس واپس لینے کا مطالبہ کر رکھا ہے اور توجہ دلائی ہے کہ محدود وسائل کے باوجود ڈاکٹروں نے کورونا کے خلاف جنگ لڑی۔ کورونا کی صورتحال میں ڈاکٹرز احتجاج نہیں کرنا چاہتے تھے۔ پوری دنیا میں فرنٹ لائن ورکرز کو خراج تحسین پیش کیا جارہا تھا لیکن پاکستان میں ڈاکٹروں پر ایم ٹی آئی آرڈینس نافذ کردیا گیا۔ ایم ٹی آئی کے ذریعے ڈاکٹروں کے حقوق چھیننے کی کوشش کی گئی ہے اور ڈاکٹر مثبت تبدیلی کے حامی ہیں۔مذکورہ قانون کے تحت سرکاری ہسپتالوں کے ملازمین کو سول سرونٹ ملازمت رکھنے یا ایم ٹی آئی ایکٹ کے تحت ملازمت رکھنے کا آپشن دیا گیا ہے۔ اس تبدیلی کے بھی مثبت اور منفی پہلو ہیں۔ سول سروس میں رہنے والے ملازمین کو دیگر مراعات تو حاصل ہوں گی لیکن پروموشن اور دیگر سروس سٹرکچر فراہم نہیں کیا جائے گا جبکہ ایم ٹی آئی ایکٹ کے تحت ملازمت رکھنے والے پینشن اور دیگر سرکاری مراعات سے تو محروم رہیں گے لیکن ان کی تنخواہیں سرکاری ملازمین سے زیادہ مقرر کی جائیں گی۔ میڈیکل کی تعلیم بہت مہنگی ہے۔ نجی میڈیکل کالجز میں طالب علم پچاس لاکھ سے زائد فیس دے کر ڈگری حاصل کرتے ہیں‘ اس کے بعد سفارش کرکے سرکاری ہسپتال میں ہاو¿س جاب ملتی ہے۔ پھر ایک سال بغیر کسی تنخواہ کے آپ سے کام لیا جاتا ہے جس کے بعد آپ نوکری کے اہل ہوتے ہیں اور پھر نہ ختم ہونے والی ایک طویل جہدوجہد شروع ہوجاتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ زندگی نام ہی جہدوجہد کا ہے لیکن نظام وہ ہونا چاہئے جو سب کےلئے یکساں قابل قبول ہو۔ ڈاکٹروں کا مطالبہ بات چیت ہے کیونکہ وہ خود کو سیاستدان نہیں سمجھتے بلکہ اپنی تمام زندگی انسانیت کی خدمت کےلئے وقف کئے ہوئے ہیں اور بات چیت سے ایسا نظام لانے کے حامی ہیں جو آنے والی نسلوں کےلئے فائدہ مند ہو۔تبدیلی چاہے سیاسی ہو یا معاشی‘ عوام پر اثر انداز ضرور ہوتی ہے۔ سادہ الفاظ میں کہا جائے تو تبدیلی کے دو ہی پہلو ہوتے ہیں ایک مثبت اور دوسرا منفی۔ اگست دوہزار اٹھارہ میں پاکستان تحریک انصاف عوامی‘ سیاسی اور معاشی تبدیلی کا نعرہ لگا کر برسراقتدار آئی جس کے بعد کس شعبے میں کتنی مثبت اور کتنی منفی تبدیلیاں رونما ہوئیں اس کا فیصلہ عوام آئندہ انتخابات میں کریں گے تاہم صحت کا شعبہ تبدیلی کے اچھے بُرے اثرات سے محفوظ نہیں۔وفاقی دارالحکومت میں میڈیکل ٹیچنگ انسٹیٹیوٹ (ایم ٹی آئی) آرڈیننس کے خلاف گزشتہ دو ماہ سے بڑے سرکاری ہسپتالوں کے ڈاکٹر سراپا احتجاج ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ آرڈیننس کی صورت میں آنے والی تبدیلی کو وہ قطعی طور پر درست نہیں سمجھتے جبکہ حکومت کو ایم ٹی آئی میں سب اچھا ہی اچھا نظر آرہا ہے۔ گزشتہ سال دسمبر میں صدرِ مملکت عارف علوی نے اسلام آباد میں قائم پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمز)‘ پولی کلینک اور نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ری ہیبلی ٹیشن میڈیسن (نرم) پر ایم ٹی آئی آرڈیننس نافذ کیا۔ اس آرڈیننس کے نفاذ سے قبل وزارت ِصحت کے حکام نے نہ صرف ڈاکٹروں کو اعتماد میں لیا بلکہ ڈرافٹ بھی پیش کیا۔ ڈاکٹروں کی جانب سے جو تجاویز پیش سامنے آئیں اُنہیں حکومت نے من و عن آرڈیننس میں شامل کرنے کی یقین دہانی بھی کروائی تھی لیکن جب آرڈیننس جاری کیا گیا تو ڈاکٹروں سمیت سرکاری ہسپتالوں کے ملازمین سرپکڑ کر بیٹھ گئے اور احتجاج کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہوئے جب کوئی نیا نظام آتا ہے تو ایک ڈر ضرور موجود ہوتا ہے اور لوگوں کو تحفظات ہوتے ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں کا موجودہ نظام درست نہیں۔ حکومت نے عوام کو معیاری علاج کی سہولیات فراہم کرنی ہیں اور موجودہ نظام فیل ہوچکا ہے جس کی بہتری کی ضرورت ہے علاج معالجے کی سہولیات میں حسب آبادی خاطرخواہ اضافہ بھی اپنی جگہ ضروری ہے تاہم یہ دونوں عوامل ڈاکٹروں کے اطمینان اور تسلی و تشفی کے بغیر ممکن نہیں اور حکومت کو ڈاکٹروں سے بات چیت کی بنیاد پر ہی ہسپتالوں کے انتظامی امور میں تبدیلیاں کرنی چاہئیں۔