اخباری اطلاعات کے مطابق نستہ ہائرسیکنڈری سکول چارسدہ سے ایف ایس سی پری میڈیکل کرنے والے طالب علم حافظ رحمت اللہ نے ایم ڈی کیٹ ٹیسٹ میں 172نمبر لیکرسارے صوبے میں18 ویں پوزیشن حاصل کی ہے ۔حافظ رحمت اللہ کے والد نے صوبائی حکومت سے اپنے غریب مگر ذہین بیٹے کے میڈیکل کالج میں داخلہ سمیت دیگر اخراجات سرکاری سطح پراٹھانے کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ڈاکٹربن کر نہ صرف انسانیت کی خدمت کرنا چاہتاہے بلکہ یہ اس کی زندگی کا مشن بھی ہے۔ حافظ رحمت اللہ نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہاہے کہ اس نے ابتدائی تعلیم گورنمنٹ پرائمری سکول نستہ سے حاصل کی اور غربت کے باعث سکول کے بعد وہ اپنے باپ کے ساتھ کھیتی باڑی میں بھی اس کا ہاتھ بٹاتاتھا۔ اس نے بتایا کہ گھر کے معاشی حالات کے باعث پشاور میں داخلہ لینے کےلئے میرٹ لسٹ میں نام شامل ہونے کے باوجود داخلہ نہ لے سکا اور بہ امرمجبوری گورنمنٹ ہائےرسیکنڈری سکول نمبر ۱ چارسدہ میں پری میڈیکل میں داخلہ لیا اور سکول ٹیچر ڈاکٹر مشتاق احمد اور مراد علی نے اس کے داخلے میں بھر پور تعاون کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی تعلیم پر بھی بھر پور توجہ دی اور اس کی حوصلہ افزائی کرتے رہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اپنے اساتذہ کرام کی راہنمائی اور شبانہ روز محنت کے نتیجے میں ایف ایس سی میں 986 نمبر حاصل کرنے میں کامیاب ہوا ۔ حافظ رحمت اللہ کاکہنا ہے کہ وہ نیورو فزیشن بننے کا خواہاں ہے ۔ اس کاکہناہے کہ میڈیکل کالج میں اس کا داخلہ یقینی ہے مگر غربت کے باعث اسے داخلے میں مشکلات درپیش ہیں اس لئے وزیر اعلیٰ خیبر پختون خوا سے اپیل ہے کہ وہ ان کی میڈیکل تعلیم سرکاری سطح پر مفت کروانے کا اعلان کریں۔حافظ رحمت اللہ کے بارے میں اس کے اساتذہ ڈاکٹر مشتاق احمد اور مراد علی کاکہنا ہے کہ وہ ایک ذہین اور قابل طالب علم ہے اور اس کے حصول علم کے شوق کو دیکھتے ہوئے انہوںنے انہیں سپورٹ کرنے کافیصلہ کیا۔ انہوں نے کہا کے کسی کی محنت بھی رائیگاں نہیں جاتی اور ہر کسی کو اپنی محنت کا صلہ مل کررہتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ سرکاری تعلیمی اداروں میں معیاری اور بامقصد تعلیم دینے کے علاوہ بچوں کی بھر پور رہنمائی اور مشاورت کا فریضہ بھی انجام دیاجاتا ہے۔حافظ رحمت اللہ کے والد شمشیر خان نے میڈیا سے گفتگوکرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ سائیکل پر کپڑا فروخت کرکے اپنے خاندان کی کفالت کرنے کے ساتھ ساتھ بچوں کی تعلیم پر بھی توجہ دیتے ہیں ۔انہوں نے بتایا کہ چند سال قبل تک وہ کھیتی باڑی کر رہا تھا مگر بیماری کی وجہ سے انہیں کاشتکاری چھوڑ نی پڑی اور ان کے پاس جوتھوڑی بہت رقم تھی وہ ان کے علاج معالجے پر خرچ ہوچکی ہے اس لئے اب ان کےلئے رحمت اللہ کے میڈیکل کالج کے جملہ اخراجات پورے کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ وہ بمشکل اپنے اہل عیال کی کفالت کر رہے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ رحمت اللہ حافظ قران ہے اور ان کے دیگر بچے بھی مدرسے میں دینی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔انہوں نے حکومت سے ان کے بیٹے کے تعلیمی اخراجات اٹھانے کی اپیل کی ہے۔حافظ رحمت اللہ جیسے ہونہار طلباءکا سرکاری سکولوں سے تعلیم حاصل کر کے میڈیکل کالج جیسے غیرمعمولی میرٹ کے حامل پیشہ ورانہ تعلیمی ادارے میں پہنچنا اس بات کا غماز ہے کہ نہ صرف یہ کہ ہمارے ہاں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں ہے بلکہ سرکاری سکولوں میں درکار سہولیات کی کمی کے باوجود یہ ادارے آج بھی ملک اور قوم کی تعمیر اور ترقی میں نمایاں مقام اداکر نے کی صلاحیت اور استعداد رکھتے ہیں۔حافظ رحمت اللہ کی کامیابی اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ اگر ہمت جوان ہو اور آگے بڑھنے کا جذبہ موجزن ہو توچھوٹی بڑی رکاوٹوں اور مشکلات کے باوجود سرکاری سکولوں کے طلباءوطالبات بھی نمایاں پوزیشن حاصل کرسکتے ہیں۔دراصل حافظ رحمت اللہ کی اس کامیابی نے اس پروپیگنڈے کوبھی شکست دے دی ہے کہ سرکاری سکولوں کا معیارگرچکا ہے ہمارے ہاں آجکل اس بحث کا بہت فیشن ہے کہ سرکاری سکول مطلوبہ نتائج دینے میں ناکام ثابت ہورہے ہیں ۔ اس بحث کے دوران اکثر اوقات ماضی کی مثالیں بھی دی جاتی ہیں کہ پرانے وقتوں میں ان ہی سرکاری سکولوں کے فارغ اتحصیل طلباءطب ،انجینئرنگ،زراعت ،بینکنگ ،آرمی اور سول و فارن سروس کے شعبوں میں میرٹ اور قابلیت کی بنیا دپر خدمات انجام دیتے تھے۔