نئے زرعی قوانین اور آئینی اصلاحات کے خلاف بھارت میں کسانوں کا احتجاج ’9 اگست (پانچ ماہ)‘ سے جاری ہے اور اِس دوران کئی مواقعوں پر پُرتشدد واقعات بھی رونما ہوئے ہیں جیسا کہ چھبیس جنوری کے روز ”کسان پریڈ“ کے دوران ہونے والے تشدد کے بعد احتجاج کرنے والوں اور احتجاج ختم کرنے کی کوششیں کرنے والوں کی راہیں مزید کھٹن ہو گئی ہیں۔ صرف بھارت ہی نہیں بلکہ کسی بھی ملک میں مزدور کسان کتنی بڑی طاقت ہیں اِس بات کا اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں رہا لیکن یہ طاقت صرف اُسی صورت اپنا لوہا منوا سکتی ہے جبکہ متحد ہو۔ بھارت کے کسانوں نے ہمسایہ ممالک بشمول پاکستان کے مزدوروں اور کسانوں کو بھی ’چین کے طوطے‘ کی طرح پیغام ارسال کیا ہے کہ اگر اُنہیں اپنے متعلق فیصلوں اور حالات کار میں تبدیلی لانا ہے تو اِس کے لئے متحد ہونا ہوگا۔بھارت کے کسان احتجاج کے سبب دارالحکومت نئی دہلی اور نئی دہلی کے داخلی و خارجی علاقوں (سنگھو‘ غازی پور اور ٹکڑی بارڈر) میں انٹرنیٹ کی سروسز پہلے2فروری اور بعدازاں تاحکم ثانی معطل کر دی گئی ہیں جبکہ ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بھی انٹرنیٹ کی بندش اور احتجاج کے شرکا سے بات چیت میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ سب کچھ ایک ایسے ملک (بھارت) میں ہو رہا ہے جو خود کو دنیا کی سب سے قدیم جمہوریہ کہتی ہے جو کہ اپنی جگہ ایک تاریخی حقیقت ہے لیکن اِس تاریخی حقیقت کا پول کھل چکا ہے اور اِس تاریخی حقیقت کی ساکھ باقی نہیں رہی کہ یکم فروری سے سماجی رابطہ کاری کے وسائل (سوشل میڈیا) استعمال کرنے والے اُن سبھی صارفین کے کھاتے (اکاو¿نٹس) بھی معطل کروائے گئے جو کسانوں کی تحریک کی حمایت میں پیغامات دے رہے تھے! بھارت کے فیصلہ سازوں نے ثابت کیا ہے کہ انہوں نے دنیا کی قدیمی سہی لیکن ’بدترین جمہوریت‘ کو عوام کے مقابلے لا کھڑا کیا ہے۔ انٹرنیٹ کے استعمال سے ’منظم احتجاجی تحاریک‘ کا یہ (عرب سپرنگ) پہلا موقع تھا جس میں بھارت کے کسان احتجاج نے نئے باب کا اضافہ کیا ہے۔بھارت میں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا اکاو¿نٹس پر پابندی سے صرف کسانوں کا احتجاج ہی متاثر نہیں ہو رہا بلکہ روزمرہ کی کاروباری و عمومی معمولات بھی درہم برہم ہیں۔ حکومت کی جانب سے پابندی کا شکار ہونے والے اکاو¿نٹس میں معروف انڈین جریدے ’دی کاروان انڈیا‘ کا ٹوئٹر اکاو¿نٹ بھی شامل ہے جبکہ پرسار بھارتی کے سربراہ ششی شیکھر کا اکاو¿نٹ بھی پابندی کی زد میں ہے تاہم ان میں سے کچھ اکاو¿نٹس ڈیسک ٹاپ یا لیپ ٹاپ کمپیوٹر سے کھل جاتے ہیں تاہم موبائل پر ان اکاو¿نٹس تک رسائی نہیں ہو پاتی۔ ’دی کاروان‘ جریدے کے سیاسی امور کے مدیر ہرتوش سنگھ بل نے بھی ٹوئٹر پر اپنے ذاتی اکاو¿نٹ سے جریدے پر لگنے والی پابندی کی ٹویٹ کی۔ کسان ایکتا مورچہ کے آئی ٹی سیل سے وابستہ بلجیت سنگھ نے الزام لگایا ہے کہ ان کے کھاتے پر ’ڈیجیٹل حملہ‘ ہوا اور پابندی عائد کر دی گئی۔ کسانوں کےلئے یہ بات حیرت کا باعث ہے کہ حکومت نے صرف کاشتکاروں اور کسانوں ہی کے نہیں بلکہ اُن کے حامیوں کی آواز دبانے کی بھی کوشش کی ہے اور اِس پوری صورتحال پر عالمی سطح پر انسانی حقوق کی تنظیمیں یقینا نظریں رکھی ہوئی ہوں گی کیونکہ زیرتسلط ریاست کشمیر کے بعد بھارت کی انتہاپسند حکومت نے اختلاف کرنے والوں کو بھی کشمیریوں کی صف ہی میں لا کھڑا کیا ہے۔ انٹرنیٹ پر پابندی میں بھارت کی معاونت کرنے کےلئے اسرائیل اور امریکہ پیش پیش ہے جن کی دفاعی ٹیکنالوجیکل کمپنیاں معلومات تک رسائی کو محدود اور بیک وقت کروڑوں صارفین کے کوائف پر نگاہ رکھنے میں مہارت رکھتی ہیں۔ اِس نکتہ¿ نظر سے بھارت کے کاشتکاروں کی تحریک کو دیکھا جائے تو تمام تر پابندیوں اور مشکلات کے باوجود بھی اگر تحریک متحد اُور منظم انداز میں جاری ہے اور یہ عالمی طاقتوں کے وسائل کا مقابلہ بھی کر رہی ہے تو یہ قطعی غیرمعمولی بات ہے اور دنیا کو سمجھ لینا چاہئے کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں‘ جن کے اتحاد و اتفاق کے سامنے عالمی طاقتیں اور اُن کی ٹیکنالوجی کامیاب نہیں ہو سکتیں۔ بھارت کی درخواست پر جن ٹوئٹر اکاو¿نٹس پر پابندی عائد کی گئی ہے اُنہیں عارضی طور پر معطل (روکنے) کا پیغام دیا گیا ہے۔ ٹوئٹر قواعد کے مطابق اگر ٹوئٹر کو کسی بااختیار حکومتی تنظیم یا ادارے کی جانب سے تحریری درست دی جائے تو وہ ٹوئٹر اکاو¿نٹس کے مواد تک رسائی کچھ وقت کے لئے بند کر سکتی ہے تاہم یہ پابندی اُس ملک کے اندر نافذ (عائد) ہوتی ہے کیونکہ انہیں مقامی قوانین کی خلاف ورزی کے زمرے میں شمار کیا جاتا ہے ٹوئٹرسے کسی صارف کا مواد (پیغامات) ہٹانے کی کل درخواستوں میں سے بھارت سے موصولہ درخواستوں کی تعداد سات فیصد ہے اور جنوری سے جون 2020ءکے دوران اِن درخواستوں میں 69فیصد اضافہ ہوا ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور بالخصوص سوشل میڈیا دو دھاری تلوار ہے۔ اِن وسائل سے جمہوریت کی مضبوطی اور عوام کی شکایات جان کر طرز حکمرانی کو بہتر بھی بنایا جا سکتا ہے اور اِنہی پر پابندیاں عائد کر کے بدترین طرزحکمرانی بھی قائم کی جا سکتی ہے۔