طب (میڈیکل اینڈ ڈینٹل) کی تعلیم کے دو بنیادی شعبے ہوتے ہیں ایک علمی مرحلہ جس سے باالترتیب پانچ سالہ اور چار سالہ نصابی تعلیم کی ابتدا ء کی جاتی ہے اور دوسرا عملی مرحلہ جس میں اساتذہ کی زیرنگرانی طلبا ء و طالبات کو مریضوں اور اُن کے تیمارداروں سے بات چیت کے طریقے و سلیقے سے لیکر مرض کی تشخیص‘ ادویات کی اقسام اور انہیں تجویز کرنے سے متعلق جانکاری کی جاتی ہے اور اِسی عملی تربیت میں طلبہ جراحت (سرجری) جیسے مراحل کا مشاہدہ بھی کرتے ہیں۔ طب کے علاوہ دیگر شعبوں میں تعلیم و تربیت کے اِن دو مراحل کو ابتدا ء سے نصاب کا حصہ نہیں بنایا جاتا اور طلباء فارغ التحصیل ہونے کے بعد تربیتی مشقیں کرتے ہیں لیکن چونکہ طب کا تعلق انسانی جان و صحت سے ہے اِس لئے شروع دن سے طلبہ کی ذہن سازی کی جاتی ہے کہ وہ ’مریض کو مجبور و لاچار اور اُس کے عزیزواقربا ء کو بے بس نہیں بلکہ اِنسان کو اِنسان سمجھیں۔‘ یہی وجہ ہے کہ معالج بننے کی خواہش رکھنے والے بچوں کی اکثریت سے جب یہ سوال پوچھا جاتا ہے کہ وہ ڈاکٹر بن کر کیا کریں گے تو کہتے ہیں کہ ’انسانیت کی خدمت‘ اگرچہ اُنہیں ’انسانیت‘ اور ’خدمت‘ کے مفہوم و معنی معلوم نہیں ہوتے۔ ناخواندگی کے لبادے میں لپٹی ہوئی اِس ’بے شعور خواندگی‘ کا شاخسانہ یہ ہے کہ ڈاکٹر بننے کے کتابی‘ نصابی و تربیتی مراحل مکمل کرنے کے بعد عملی زندگی میں ڈاکٹر خاطرخواہ حساسیت و احساس کا مظاہرہ کرتے دکھائی نہیں دیتے کیونکہ ایسا کرنا اُن کی تعلیم و تربیت کا حصہ نہیں۔طب کے میڈیکل شعبے کی پانچ سالہ اور ڈینٹل شعبے کی چار سالہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد عملی تربیت کے ایک سالہ دور کا آغاز ہوتا ہے جسے عرف عام میں ’ہاؤس جاب‘ کہتے ہیں۔ آئین و قواعد کی رو سے سرکاری و نجی تعلیمی ادارے اِس بات کے پابند ہیں کہ وہ ’ہاؤس جاب‘ کے دوران طب کی نصابی و ابتدائی عملی تربیت مکمل کرنے والوں کو ایک سال کی تربیت کے دوران مالی معاوضہ دیں جس کی کم سے کم شرح شاید گریڈ سترہ کے حکومتی اہلکار کی بنیادی تنخواہ کے مساوی رکھی گئی ہے لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ نجی تعلیمی ادارے اپنے ہاں سے فارغ التحصیل ہونے والے طلبا ء و طالبات کو ’ہاؤس جاب‘ فراہم کرنے میں زیادہ دلچسپی نہیں لیتے۔نجی تعلیمی اداروں کی جانب سے ’ہاؤس جاب‘ کے دوران مالی وظیفہ نہ ملنے کی شکایت بصورت مقدمہ عدالت عالیہ (پشاور ہائی کورٹ) جا پہنچی‘ جہاں چار فروری کے روز یہ فیصلہ صادر ہواکہ نجی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالجز کے طلبا ء و طالبات کو بھی ’ماہانہ وظیفہ‘ حسب شرح دیا جائے۔ اِس سلسلے میں پہلی کامیابی ’پشاور ہائی کورٹ‘ کی جانب سے ’رٹ درخواستیں‘ سماعت کے لئے منظور کرنے کی صورت سامنے آئی ہے اور عدالت عالیہ کے 2 رکنی بینچ کے اراکین جسٹس روح الامین اور جسٹس سیّد ارشد علی نے احکامات جاری کئے ہیں کہ نجی میڈیکل کالجز ڈاکٹروں کو ماہانہ وظیفہ حسب قواعد دیں۔ فاضل بینچ نے ڈاکٹر وفا سمیت 174 درخواست گزاروں کی الگ الگ درخواستوں کو ایک ساتھ نمٹادیا۔