افغان قضیہ اورجوبائیڈن انتظامیہ

عالمی امور بالخصوص جنوب مغربی ایشیا کے معاملات پر نظر رکھنے والے اکثر ماہرین امریکہ کے نومنتخب صدر جو بائیڈن کے برسراقتدار آنے کے بعد سابق صدر ٹرمپ کے بعض دیگر اہم فیصلوں کی طرح افغانستان سے متعلق امریکی پالیسی میں بھی کسی بڑی تبدیلی کی قیاس آرائیاں کررہے ہیں‘جوبائیڈن کے بعض اعلیٰ عہدیداروں نے افغانستان سے متعلق اپنے بعض حالیہ بیانات میں متنبہ کیا ہے کہ مئی میں امریکی فوجیوں کے افغانستان سے انخلاء کے ٹائم فریم میں تاخیر ہوسکتی ہے۔گزشتہ ہفتے وائٹ ہاؤس‘محکمہ خارجہ اور پینٹاگان کے مختلف عہدیداران کے افغانستان کے بارے میں سامنے آنے والے بیانات اور تبصروں سے ان خدشات کو تقویت ملی ہے جن میں جوبائیڈن انتظامیہ کی جانب سے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے گزشتہ سال فروری میں طے پانے والے امن معاہدے کے جاری رکھنے کے بارے میں شکوک و شبہات ظاہر کئے جا رہے ہیں۔ اس سلسلے میں امن معاہدے کے حامی سابق امریکی عہدیداروں اور فوجی افسران کا کہنا ہے کہ امریکی فوج کے انخلاء میں تاخیر سے نہ صرف تشدد میں اضافہ ہوسکتا ہے بلکہ ایسے کسی فیصلے کے نتیجے میں طالبان اور کابل حکومت کے درمیان جاری بین الافغان مذاکرات کوبھی دھچکا لگ سکتاہے۔جوبائیڈن کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے گزشتہ روز کہا تھاکہ امریکی انتظامیہ اس بات پر غور کررہی ہے کہ آیا گزشتہ سال طے پانے والے امن معاہدے پر طالبان کی جانب سے کتنا عمل کیاجارہا ہے،ان کا کہناتھا کہ طالبان کے کرداراور امن معاہدے پر عمل درآمد کی بنیاد پرہی امریکی انتظامیہ افغانستان سے اپنی افواج کے انخلاء کاازسرنوجائزہ لے گی۔یادرہے کہ فروری 2020 میں ہونے والے معاہدے میں اگر ایک جانب طالبان کی طرف سے دہشت گرد گروہوں سے لاتعلقی اور افغان سرزمین سے امریکی مفادات کو کوئی زک نہ پہنچنے نیزافغانستان میں جاری تشدد میں کمی لانے پر اتفاق کیاگیا تھا تودوسری طرف اس امن معاہدے کے بدلے میں مئی 2021 تک افغانستان میں متعین تمام امریکی افواج کی بتدریج واپسی کافیصلہ بھی کیا گیا تھا۔نئے امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن نے بھی افغان صدر اشرف غنی سے اپنی حالیہ گفتگو میں کہا ہے کہ انسانی حقوق، شہری آزادیوں اور افغان معاشرے میں خواتین کے کردار کے حوالے سے گزشتہ 20 سالوں میں جو پیشرفت ہوئی ہے اس کو امریکہ افغان حکومت کے ساتھ مل کر برقرار رکھنے کی ہرممکن کوشش کرے گا چاہے اس کے لئے نئی امریکی انتظامیہ کو کوئی نیا امن تصفیہ ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔افغان پالیسی میں اس تبدیلی کا افغان صدر اشرف غنی نے خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ نئی امریکی ٹیم کے نقطہ نظر سے خوش ہیں اور وہ ان کے ساتھ ہرممکن تعاون کے لئے تیار ہیں۔نئی امریکی انتظامیہ کی افغان پالیسی میں ردوبدل کے واضح اشاروں کے باوجود یہ بات قابل توجہ ہے کہ جوبائیڈن انتظامیہ نے افغان قضیئے کے مستقل حل کے لئے کوئی بڑ ایوٹرن لینے کی بجائے گاجر اور چھڑی کافارمولہ اپناتے ہوئے ضرورت پڑنے پرجہاں انخلاء کے منصوبوں کو بریک لگانے کاعندیہ دیا ہے وہاں کچھ وقت کے لئے افغانستان میں سابق صدر ٹرمپ کے امن مندوب زلمے خلیل زاد کو برقرار رکھ کر امن پراسس کوموقع دینے کی خواہش کااظہار بھی کیا ہے۔ واضح رہے کہ افغانستان میں اب تقریباً ڈھائی ہزارامریکی اور لگ بھگ سات ہزار نیٹو فوجی رہ گئے ہیں حالانکہ ایک سال پہلے تک افغانستان  میں 12 ہزار امریکی فوجی تعینات تھے جن کی تعداد جولائی میں کم ہوکرآٹھ ہزار چھ سو رہ گئی تھی۔مبصرین کاخیال ہے کہ جب17-18 فروری کو نیٹو کے وزرائے دفاع کااجلاس ہوگا تو بائیڈن انتظامیہ کا افغانستان کے بارے میں موقف غالباًایجنڈے میں سرفہرست ہوگا۔یہاں اس امرکو بھی ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ حالیہ مہینوں میں جب امریکی فوجیوں کی سطح کم ہوئی تونیٹو کے سیکرٹری جنرل جینس اسٹولٹن برگ نے متنبہ کیا تھا کہ عجلت یا غیر منظم انداز میں افغانستان سے انخلاء سنگین خطرات کاباعث بن سکتاہے جس سے ممکنہ طور پر یہ ملک دہشتگرد گروہوں کے لئے ایک نئی پناہ گاہ بن سکتا ہے۔یہاں ہمیں اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے کہ 20 سال کے تلخ اور تباہ کن تجربات کے بعد پوری دنیا اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ افغان تنازعہ کا کوئی فوجی حل نہیں ہے۔