ایک دسترخوان بچھا ہو‘اس پر قسم قسم کے کھانے چن دیئے گئے ہوں۔کھانے والے بہت ہوں مگر تمام کے تمام ہر پکوان نہیں کھائیں گے۔ ہر ایک کی پسند مختلف ہوتی ہے۔پھر ایک ہی آدمی سب کچھ نوش نہیں کرسکتا۔ اپنا اپنا ظرف ہوتا ہے۔اپنی صحت اور پسند کے مطابق کسی ڈش کا انتخاب کرے گا۔ مسئلہ پرہیز کا ہو تو چاول نہیں کھا سکے گا۔ کسی اور ڈش کی طرف ہاتھ بڑھائے گا۔کسی کو گوشت نہیں کھانا وہ بریانی ڈال لے گا۔اس موقع پر مرزا غالب کا شعر یاد آیا ہے۔فرماتے ہیں ”دلِ حسرت زدہ تھا مائدہ لذتِ درد۔کام یاروں کا بقدرِ لب ودنداں نکلا“۔اس شعر کی سادہ عبارت یہ ہے کہ میری خواہشات جو پوری نہ ہو سکیں۔ وہ میرے دل کے دستر خوان پر چن دی گئی ہیں۔ اس دل کی مثال دسترخوان کی سی ہے۔یہاں ارمانوں کی شکل میں درد کے مختلف ذائقے ہیں مگر کوئی جو میری شاعری کو سمجھنا چاہتا ہے۔اپنی کوشش علم اور مشاہدہ اور تجربہ کے مطابق سمجھے گا۔ہر چند کہ سمجھنے والے کی واقفیت بھی زیادہ ہوگی مگر ہر ایک کو الگ الگ سمجھ میں آئے گا۔اسی معاملے کو کلاس روم تک لے جاتے ہیں۔ استاد کی گفتگو کی مثال بھی ایک دسترخوان کی سی ہے۔اس کے لب و دہن سے جو نکات سٹوڈنٹس کے کانوں تک پہنچتے ہیں۔وہ سارے پوائنٹس ہر طالب علم مکمل طور پر وصول نہیں کرسکتا۔ کوئی تھوڑا سمجھے گا اور کوئی زیادہ اور کوئی مکمل تو نہیں مگر کافی زیادہ طور پر ٹیچر کی باتیں ذہن نشین کر لے گا۔ایک سٹوڈنٹ کہے کہ سر میں نہیں سمجھا۔اس کا مطلب یہ نہیں ہوگا کہ استاد میں کمی ہوگی کیونکہ باقی کے طلباء و طالبات تو سمجھ گئے۔اس موقع پر ٹیچر بطور جانکاری کسی دوسرے سٹوڈنٹ سے سوال کر کے پوچھ سکتا ہے کہ آپ بتلائیں آپ کیا سمجھے۔یوں کہیں ریڈیو کی نشریات تو آرہی ہیں۔مگر ٹرانسمیٹرمیں خرابی ہے یا پھرریسیور کم قیمت ہے۔ جس میں نشریات کھینچینے کی صلاحیت کم ہے۔یہ بہت قریب کی مثال ہے کہ سگنل تو ہیں اور مضبوط ہیں مگر دس بندوں کے پاس جو موبائل ہیں ان میں صلاحیت الگ الگ ہے۔ کوئی ٹچ ہے کوئی بٹن والاہے۔سو اس وجہ سے ان کی کارکردگی مختلف ہو سکتی ہے۔کلاس میں استاد کا اپنے طالب علموں سے سوال کرنا بعض اوقات سٹوڈنٹس کا چیک نہیں بلکہ اپنا امتحان ہوتا ہے۔استاد اندازہ لگاتا ہے کہ میں نے اپنی بات کو سامنے والے کے دل تک کس حد تک پہنچایا۔کلاس روم میں طلباء کے جواب سے استاد اپنا ٹیسٹ کرلیتا ہے۔ پھربعض اوقات سوالات کا مقصد خود سٹوڈنٹس کو چیک کرنا بھی ہوتا ہے کیونکہ طالب علموں کے جوابات دینے سے استاد کو واقفیت حاصل ہوجاتی ہے کہ میرے مخاطب کس ذہن کے ہیں ان کامعیار کیا ہے۔ کیا مجھے اس سے زیادہ بہتر پڑھاناہوگا یا جس طرح میں نے پڑھایا اس کو آسان کرناہوگا۔کمرہ جماعت میں بعض طالب علموں کی ذہنی سطح کمزور ہوتی ہے۔پھر کچھ کا ذہن بہت شارپ ہو تاہے۔وہ بات کو جلدی اٹھا لیتے ہیں۔ ان دونوں صورتوں میں کئی صورتیں ہیں پھر کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔طالب علم کی ذہنی سطح کمزور کیوں ہے پھر کسی کا ذہنی معیار بلند کیوں ہے مگر کمزور طالب علم کو سکول‘کالج‘یونیورسٹی کے ماحول میں رہ کر مستقل طور پڑھائی اور اس سے منسلک امور پر توجہ دے کر موقع مل جاتا ہے کہ وہ اپنی ذہنی کمزوری دور کرلے۔کچھ گھر کے ایسے ماحول سے آتے ہیں جہاں لکھائی پڑھائی اور ایجوکیشن والی فضا ہوتی ہے۔ان طلباء کی ذہنی حالت پہلے ہی سے بہتر ہوتی ہے مگر یہ بھی ہوتا ہے کہ ایک اچھے ماحول سے جہاں کتاب کی حکومت ہوتی ہے جو طالب علم آتا ہے وہ ذہنی طور پر کمزور واقع ہو۔پھر ایسا بھی ہے کہ ایک ان پڑھ ماحول اور علاقے سے آنے والے سٹوڈنٹ کی ذہنی سطح قدرتی طور پر بلند ہو۔ یہاں طالب علم کی قدرتی صلاحیت بھی کام کرجاتی ہے۔اس کو ٹیلنٹ سے واضح کیا جاتا ہے۔ٹیلنٹ خود کار صلاحیت کا نام ہے جو سیکھنے سے نہیں آتی بلکہ بغیر استاد کی مددکے اس طالب علم میں پہلے سے موجودہوتی ہے۔اس موقع پر استاد کی صحبت ایسے ٹیلنٹ والے شاگرد کے لئے دور سے راستہ بتلانے والی بات ہوتی ہے۔پھر طالب علم نے خود آگے اپنی راہ مزید تلاش کرناہوتی ہے۔اس سے ہٹ کر کمزور طالب علموں کو انگلی پکڑ کر اس راستے پر لے جانا پڑتا ہے۔یہ قدرت کی بنائی ہوئی دنیاہے۔یہاں ہر قسم کے استاد ہیں اور ہر قسم کے شاگردموجودہیں۔اسی طرح ایک افسانہ نگار کے افسانے یا کسی اورتحریر سے ہر قاری برابر فائدہ نہیں لے سکتا۔ ایک دسترخوان کی مثال ہے۔بعض فائدہ لیتے ہیں اور بعض اپنے ذہن کی چمک دمک کی وجہ سے فائدہ اور مزہ دونوں لیتے ہیں۔بعض مجبوری سے پڑھتے ہیں او ربعض شوق سے پڑھتے ہیں۔ تحریر میں بھی مختلف پہلو ہوتے ہیں۔الفاظ کی جادو گری الگ ہوتی ہے اور خیالات کی وسعت اور ان کا نیا پن جداہوتا ہے۔بڑے رائٹر کے کارنامے بھی بڑے ہوتے ہیں۔ اس نے ایک ہی تحریر میں مختلف ذائقے سمو دیئے ہوتے ہیں۔ پھرمعلومات جدا گانہ حیثیت سے ہوتی ہیں۔