یکم فروری کو میانمار میں فوج نے اقتدار پر قبضہ کرکے آنگ سان سوچی سمیت بہت سے وزراء اور سیاستدانوں کو گرفتار کرلیا اور ایک سال کے لئے ایمرجنسی نافذ کردی۔ سوچی کی نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی نے انتخابات میں بھاری کامیابی حاصل کی لیکن فوج نے انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا ہے حالانکہ بین الاقوامی اور ملکی مبصرین نے اسے آزادانہ اور منصفانہ قرار دیا ہے۔میانمار میں نافذ 2008 کے آئین کے تحت فوج کو ملکی سیاست، پارلیمان اور حکومت میں وسیع اختیارات حاصل ہیں تو پھر وہاں فوج نے اقتدار پر قبضہ کیوں کیا؟1948 میں آزادی کے بعد سے میانمار کی فوج سیاسی منظر پر چھائی رہی لیکن 1962 میں اس نے باقاعدہ اقتدار سنبھال لیا۔ 2008 میں ایک نیا آئین نافذ کیا گیا جس کے تحت فوج دفاع، داخلہ امور اور سرحدی امور کی وزارتوں کو کنٹرول کرتی ہے۔ قومی اور علاقائی اسمبلیوں میں اسے 25 فیصد نشستیں حاصل ہیں۔ آرمی چیف تمام سیکورٹی اداروں کے سربراہ ہیں۔ وہ اپنے باس (وزیر دفاع) سمیت کئی اہم وزراء اور ایک چوتھائی ارکان پارلیمنٹ کی تقرری کرتا ہے۔ یوں اسے عملاً آئین میں ترمیم اور فوج کے اختیارات کم کرنے کی کسی بھی کوشش کو ناکام کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ یہ نظام فوج کے گروہی اور معاشی مفادات کے تحفظ کےلئے بنایا گیا ہے۔ چنانچہ ابھی تک کسی بھی اعلیٰ فوجی افسر کو فوج کی جانب سے کی جانے والی زیادتیوں مثلاً روہنگیا مسلم اقلیت جیسی نسلی اقلیتوں پر منظم ظلم و جبر، جمہوریت کے حامی مظاہرین کے قتل عام اور بدعنوانی بارے عدالتوں میں جوابدہ نہیں بنایا جاسکا۔اپنی پہلی حکومتی مدت (2016 سے 2020 تک) کے دوران سوچی نے آئینی، قانونی یا مالی طور پر فوج کی طاقت کو کم کرنے کی کسی سنجیدہ کوشش سے گریز کیا۔ وہ اقتدار میں اس وقت آئیں جب انہوں نے فوج کو اطاعت کا یقین دلایا اور فوج کے ساتھ شراکت اقتدار کے ڈھانچے پر اتفاق کیا۔سوچی ہمیشہ فوج کے بارے میں بات کرنے میں محتاط رہیں۔ اس نے شروع سے ہی اعلی فوجی افسروں کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کیے اور ان کی پارٹی سینئر فوجی افسران کے ساتھ مل کر بنائی گئی تھی۔ 2010 میں نظربندی ختم ہونے کے بعد وہ اکثر فوج کے ان سابق افسروں کے ساتھ کھانا کھاتی رہیں جنہوں نے اسے گرفتار کیا تھا۔ اس کے والد میانمار کی فوج کے بانی تھے اور ان کا کہنا تھا کہ انہیں فوج سے بے حد پیار اور احترام ہے۔ اس دوران میانمار فوج کے سربراہ جنرل من آنگ ہلینگ کی ریٹائرمنٹ کی عمر پانچ سال قبل 60 سے بڑھا کر 65 کردی گئی تھی اور اس سال وہ ریٹائر ہورہے تھے۔ اسے تشویش تھی کہ عہدے سے ہٹ جانے کے بعد روہنگیا مسلمانوں کی نسلی صفائی میں اس کے کلیدی کردار کےلئے ملک میں نہ سہی تو کم سے کم بین الاقوامی سطح پر اس کے خلاف مقدمہ چلایا جاسکتا ہے۔ یوں جنرل کو سوچی کی موجودگی میں ایک محفوظ اخراج اور مستقبل غیر یقینی دکھائی دینے لگا۔سوچی خودپسند اور آمرانہ مزاج کی مالک تھیں۔ دو غیر ملکی بیٹوں کی ماں ہونے کی وجہ سے وہ آئین کے تحت صدر بننے کی اہل نہ تھیں تو ان کےلئے سٹیٹ کونسلر کا عہدہ بنایاگیا اور اقتدار سنبھالتے ہی انہوں نے فوری طور پر خود کو صدر سے بالاتر ہونے کا اعلان کردیا۔تاہم ایک دو سالوں سے جنرل من آنگ ہیلیینگ کے ساتھ ان کے رابطے اور ملاقاتیں نہ ہونے کے برابر رہ گئی تھیں۔ اس دوران ان کی پارٹی نے ایک ناکام کوشش بھی کی کہ پارلیمنٹ میں فوج کی نشستیں کم کی جائیں۔فوج کے ساتھ ان کی بہت سی سیاسی جبلتیں یکساں تھیں لیکن سوچی کوشش کر رہی تھیں کہ وہ صدر بن جائیں جبکہ فوج کے سربراہ بھی مبینہ طور پر اس عہدے میں دلچسپی رکھتے تھے۔۔ان کی پارٹی نے نومبر میں ہونے والے انتخابات میں جرنیلوں کی حمایت یافتہ پارٹی سے بارہ گنا زیادہ نشستیں جیت لیں۔ فوج کو سوچی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت مستقبل کا خطرہ دکھائی دیا۔ اس طرح وہ فوجی حمایت کھو بیٹھی۔28 جنوری کو جنرل من آنگ ہلینگ کے نمائندوں نے محترمہ آنگ سان سوچی کو ایک خط بھیجا جس میں دوبارہ گنتی اور پارلیمنٹ کے افتتاح میں تاخیر کا حکم دیا گیا ورنہ نتائج کےلئے تیار رہنے کا کہا گیا۔انہوں نے حکمران ہونے کے باوجود اپنے روہنگیا مسلمان شہریوں پر ظلم وستم کو روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی بلکہ الٹا ظالموں کی طرفداری کی۔ ایسے میں مکافات عمل کے قانون کے تحت وہ مظلوموں کی بددعا سے کیسے بچ سکتی تھیں۔بین الاقوامی سطح پر اس اقدام کی محتاط الفاظ میں مخالفت کی گئی ہے اور امریکہ اور کچھ مغربی ممالک پابندیوں پر غور کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے"حراست میں لئے گئے تمام افراد کی فوری رہائی" اور "جمہوری منتقلی کی مسلسل حمایت کی ضرورت" پر زور دیا ہے۔ لیکن بظاہر چین کو خوش کرنے کےلئے، جسے اقوام متحدہ میں حقِ استرداد حاصل ہے اور جو میانمار میں اپنے مفادات اور سرمایہ کاری کی وجہ سے اس کا حامی ہے، نہ تو فوجی قبضے کا ذکر کیا گیا ہے اور نہ ہی کسی قسم کی پابندیوں کی دھمکی دی گئی ہے۔ ویسے مبصرین کا کہنا ہے کہ مغربی پابندیوں کے اثرات کو چین کم کرسکتا ہے۔