فروری کے ہیں دن پچاس ہزار۔۔۔

 دل کتنا ہی غم زدہ ہو۔مگر ان دنوں کی ہوا یونہی بے سبب دل کو اچھی لگ رہی ہے ۔یہی اس کی نشانی ہے ۔یہ بہار کی آمد کی اطلاع ہے ۔بہار آ چکی ہے ۔ابھی پھولوں نے سرِ شاخ ظاہر ہونا ہے ۔ درختوں کے سبز لبادے تیار ہیں۔ بس جونہی فروری کے اختتام کا بگل بجے گا۔ وہاں اس شہر میں بہار کے داخل ہوجانے کے ڈھول بجنا شروع جائیں گے۔ پھر ہر سو ہریالی ہوگی۔ جنوری میں ہم نے تین تین کوٹیاں پہن رکھی تھیں۔ مگر اب آہستہ آہستہ ان کی تعدا د میں اتنی کمی ہوئی کہ ایک بھی پہن کر گھوم لیتے ہیں۔دن کو تو سورج کی تپش سے دل کو ان دیکھی ڈھارس رہتی ہے ۔مگر شام پڑتے ہی دوبارہ سے خنکی زیادہ ہو جاتی ہے ۔مگر موسمی تبدیلیاںہیں ۔تبدیلی کبھی ہمیشہ کو مقرر نہیں ۔ کیونکہ موسم کو قرار نہیں ۔ کبھی کیا کبھی کیا۔ گرمی سردی خزاں بہار ۔ان میں جدائیوں کے موسم بھی ہیں۔” یہ جدائیوں کے موسم یونہی رائیگاں نہ جائیں۔ کسی یاد کو پکارو کسی درد کو جگا¶“ ( احمد فراز)۔ چار موسموں کی ہماری سرزمین میں اب اور موسم بھی درآئے ہیں۔شاید ان کی ترتیب بدل رہی ہے یا ان کی نیت بدل رہی ہے۔یکم فروی کو گرمی کے آغاز کا پہلا دن تھا۔ جب پانی پینے کو جی چاہا ۔اس سے قبل تو چائے گرم گرم قہوہ ہی نوش کر کے جسم میں پانی کی کمی دور کرتے رہے ۔ اندازہ ہوا کہ اب گرما کی شروعات ہو چکی ہیں۔ فروری میں مارچ کی حسیات اور محسوسات نمایاں طریق سے جسم و جاں کو معطر کئے جارہی ہیں۔فروری میں دنوں کی تعداد کم ہوتی ہے ۔مگر کبھی اس مالا میں ایک دن اور پرو لیا جاتا ہے۔لیکن دلوں کی الجھنیں جب بڑھ جاتی ہیں تو فروری کے دن پچاس ہزار لگنے لگتے ہیں۔ کیونکہ یہ مہینہ گذر ہی نہیں پاتا۔ مگر ان لوگوں کے لئے چٹ پٹ گذرتا ہے جو شاد ہیں ۔ جو ناشاد ہیں وہ تو اس ماہ کو زبردستی گذارنے لگتے ہیں ۔لیکن پھر بھی یوں لگتا ہے کہ اسحاق وردگ نے شاید اسی لئے کہا ہوگا ” فروری کے ہیں دن پچاس ہزار ۔ کوئی بچھڑا تھا اس مہینے میں“۔پھر انھی کا شعر ہے ” یومِ کشمیر ویلنٹائن ڈ ے۔ فروری کے کئی حوالے ہیں “۔دو چار روز پہلے گورنمنٹ کا لج پشاور میں ایک تقریب منائی گئی۔ رنگا رنگ پروگرام تھا۔ پرنسپل نصراللہ خان نے صدارت کی ۔ تقریری مقابلہ تھا ۔کشمیر کے حوالے سے جذباتی تقاریر سننے کو ملیں ۔بینظیر وومن یونیورسٹی کی پروفیسر ڈاکٹر زینت اور سپیئریر سائنس کالج پشاو رکے پروفیسر اعجاز کے ساتھ اس نیاز مند کو بھی بطور جج کھینچ بلایا۔ بھلا بڑے لوگوں میں ہمارا کیا کام ۔آرگنائزر پروفیسر سید ولی اچھے آدمی ہیں جو ہم جیسوں کی عز ت کرتے ہیں۔ پروگرام کی خاص بات طالب علموں اور طالبات کے درمیان مقابلے میں پہلے تین نمبر پر آنے والی تینوں بچیاں تھیں۔شاہیہ اعزاز اول پوزیشن پر رہیں۔ان کاتعلق گورنمنٹ گرلز کالج حیات آباد نمبر 2سے ہے ۔ دوسری پوزیشن پر عائشہ رومان تھیں جو فرانٹیئرکالج پشاور سے ہیں۔ جبکہ پشاور سٹی گرلز کالج گل بہار کی فضہ تیسرے نمبر پر آئیں۔بات ہو رہی تھی فروری کے مہینے کی اور مگر بات کہاں سے کہاں نکل گئی ‘یہ تو کیفیات ہیں کبھی سال بھی چٹکی بجاتے ہوئے گذر جاتا ہے اور کبھی پل بھر بھی گذر نہیں پاتا۔ہمیں تو کشمیر کے موسم ِ بہار پرنگاہ رکھنا ہے ۔جن چناروںتلے پرچھائیاں اس موسمِ گل میں دوبارہ سے جل اٹھیں گی۔جہاں کی مائیں ٹھنڈی چھائیں اپنے دل کے زخموں کو ٹھنڈا پڑجانے پر درد سے مزید مہکائیں گی۔ جہاں کے بچے ہیرے موتی سبزوں اور پھولو ں کے پالے ہوئے مٹی میں رول دیئے گئے۔جہاں آنچل پرچم بن گئے ہیں ۔جن کی جلتی چھا¶ں تلے پھولوں کے جنازے اٹھا©ئے جاتے ہیں‘جہا ںکی سرزمین لاکھوں کشمیریوں کو اپنے اندر سمو کر دنیا کی سب سے بڑی سنٹرل جیل بن چکی ہے ۔