جولائی 2012ئ: پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار مالی سال 2011-12ءکے دوران کپاس کی برآمدات پندرہ لاکھ گانٹھوں تک جاپہنچی جو کپاس کی غیرمعمولی طور پر زیادہ (ریکارڈ) پیداوارکی وجہ سے ممکن ہوا اور کپاس کی اِن برآمدات سے پاکستان کو 42کروڑ ڈالر سے زائد کا زرمبادلہ حاصل ہوا تھا۔ قابل ذکر یہ بھی ہے کہ مالی سال 2011-12ءکا عرصہ پاکستان کی کاٹن انڈسٹری کے لئے اچھا رہا‘ جس دوران گزشتہ مالی سال کے مقابلے کپاس سے بنی مصنوعات کی برآمدات میں اضافہ ہوا اور قومی خزانے میں ساڑھے بیالیس کروڑ جمع ہوئے۔ ذہن نشین رہے کہ کپاس کی زیادہ پیداوار ہونے سے بھی پاکستان کو خاطرخواہ فائدہ حاصل نہیں ہوا تھا کیونکہ پیداوار کا بڑا حصہ خام کپاس کی صورت فروخت کر دیا گیا جبکہ یہ خام کپاس خریدنے والے کئی ممالک بالخصوص بنگلہ دیش کی برآمدات پاکستان سے زیادہ رہی تھیں۔ فروری 2020ئ: پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن (پی سی جی اے) نے اپنی سالانہ رپورٹ جاری کی‘ جس میں کہا گیا ہے کہ اگیس جنوری دوہزار بیس تک پاکستان میں کپاس کی پیداوار گزشتہ پیداواری سال کے مقابلے34.35 فیصد کم رہی۔ رواں برس پاکستان میں پچپن لاکھ اکتہر ہزار گانٹھیں کپاس حاصل ہوئی ہے اُور اِس کم پیداوار کی ایک وجہ فی ایکڑ حاصل ہونے والی کم فصل جیسا محرک بھی ہے۔ گزشتہ کئی برس سے یہ عمل دیکھنے میں آ رہا ہے کہ کپاس کی فصل تیار ہونے کے قریب بارشیں ہو جاتی ہیں جس کی وجہ سے کپاس کے پودے کو ایک قسم کی بیماری لگنے سے فصل کا بڑا حصہ ضائع ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ برآمد کرنے کے قابل نہیں رہتا۔ اِس صورتحال سے پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری سب سے زیادہ متاثر ہو رہی ہے جنہیں 29لاکھ گانٹھ کی کمی کا سامنا ہے اُور جب کپاس کی پیداوار کم ہو اُور اِسے درآمد کرنا پڑے تو اخراجات اِس قدر زیادہ ہوتے ہیں کہ پاکستان میں بنی ہوئی مصنوعات عالمی منڈیوں میں قیمتوں کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ ذہن نشین رہے کہ پاکستان کی مجموعی برآمدات میں کپاس سے تیار ہونے والی مصنوعات کی برآمدات کی حصہ داری 55 سے 60فیصد ہیں اُور جب ملک کی نصف سے زائد برآمدات ہی متاثر ہو جائیں تو دیگر شعبے اِسے سہارا نہیں دے سکتے۔ کپاس کی پیداوار میں کمی کا عمل گزشتہ تیس برس سے جاری ہے اور اِس دوران ہونے والا واحد اضافہ مالی سال دوہزار گیارہ بارہ میں دیکھنے میں آیا تھا جس کے بعد بھی کپاس کی پیداوار کم رہی تھی اور اِس پیداواری خسارے کی وجہ سے ٹیکسٹائل کے شعبے کے ساتھ برآمدات کم ہو رہی ہیں۔ جب ہم صنعتی شعبے کی مشکلات کا ذکر کرتے ہیں تو اِس سے مراد روزگار کے مواقعوں میں کمی ہوتی ہے اور چونکہ کپاس کی پیداوار پنجاب اور سندھ میں ہوتی ہے تو اِن دونوں صوبوں سے حاصل ہونے والی نمایاں کمی وفاقی سطح پر زرعی بہتری کے لئے فیصلوں کے متقاضی ہیں۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد زراعت کو صوبوں کے حوالے کرنے سے ہونے والا نقصان اپنی جگہ توجہ طلب ہے۔ گزشتہ ماہ (جنوری دوہزاراکیس) کے آخر تک پنجاب میں کپاس کی پیداوار گزشتہ سال کی اسی مدت میں پیدا ہونے والی پچاس لاکھ چودہ ہزار گانٹھوں کے مقابلے میں چونتیس ہزار چھتیس لاکھ گانٹھوں تک رہی۔ سندھ میں پیداوار ساڑھے 38فیصد تک کم ہوکر گزشتہ سال کی اسی مدت میں چونتیسلاکھ بَہتر ہزار گانٹھوں کے مقابلے میں اکیس لاکھ چونتیس ہزار گانٹھیں رہیں۔ اگرچہ رواں مالی سال (دوہزاربیس اکیس) کے پہلے چھ ماہ کے دوران ٹیکسٹائل کی برآمدات سات اعشاریہ آٹھ فیصد اضافے سے سات ارب چوالیس کروڑ بیس لاکھ ڈالر کا اضافہ ہوا تاہم صنعت کو رواں مالی سال کے پہلے پانچ ماہ میں بتیس کروڑ دس لاکھ ڈالر کی روئی درآمد کرنا پڑی تھی۔خوش آئند ہے کہ کپاس کے کاشتکاروں اور کپاس سے مصنوعات تیار کرنے والی ٹیکسٹائل انڈسٹری کے نمائندے مل بیٹھ کر کم پیداوار کا مسئلہ حل کرنے کے بارے میں سوچ بچار کر رہے ہیں اور اِس سلسلے میں ’گول میز کانفرنس‘ کا انعقاد بھی ہو چکا ہے جس میں پیداوار میں تیزی سے کمی اور مسائل کے حل کی وجوہات معلوم کرنے جیسے اہداف کا تعین ہوا ہے۔ ابتدائی غوروخوض سے کاشتکاروں کا مو¿قف سامنے آیا کہ اُنہیں اچھے بیج کے حصول میں دشواری کا سامنا رہا جس کی وجہ سے زیرکاشت رقبہ بھی کم ہوا رہا۔ اِس سلسلے میں مرکزی بینک (سٹیٹ بینک آف پاکستان) کے جاری کردہ حالیہ اعدادوشمار کو مدنظر رکھا گیا جس میں کہا گیا تھا کہ کپاس کی فصل کے لئے وقف شدہ رقبہ بائیس لاکھ ہیکٹر رہا جو مالی سال 1982ءکے بعد سب سے کم ہے یعنی پاکستان میں ہر سال کپاس پہلے سے کم رقبے پر کاشت ہو رہی ہے کپاس کی قلت نے پیداواری لاگت میں اضافہ کیا ہے کیونکہ ٹیکسٹائل ملوں کو مہنگے داموں کپاس درآمد کرنا پڑتا ہے اُور اِس درآمد کو بھی سوفیصد صنعتی صلاحیت کے مطابق درآمد نہیں کیا جاتا بلکہ کم سے کم ضرورت ہی کے لئے درآمد کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ درآمد کی گئی روئی سے تیار ہونے والی مصنوعات پاکستان میں بھی کپڑے و دیگر اشیاءکی قیمتوں میں اضافے کا باعث بنتی ہیں۔