حکومت آزاد بجلی گھروں سے ملک کو بجلی دینے کا بڑا معا ہدہ کر رہی ہے اس معا ہدے کو ما سٹر ایگریمنٹ کہا جا رہا ہے معا ہدے کے تحت نجی شعبے کی ملکی اور غیر ملکی کمپنیاں اپنے تیل‘ ہوا‘ سورج اور جوہری توانائی کے بجلی گھروں سے ملک کے اندر بجلی کی 50فیصد ضرورت پوری کرینگی اگلے 25سالوں میں توانا ئی کے شعبے میں 10 کھرب روپے کی سر ما یہ کاری ہو گی ملک کے کسی حصے میں بجلی کی کمی نہیں ہو گی بجلی کی لو ڈ شیڈنگ نہیں ہو گی اس سلسلے میں 47کمپنیوں کے ساتھ مفا ہمت کی یا د داشتیں ہو چکی ہیں ان میں سے 42کمپنیوں نے معا ہدے پر آمادگی ظاہر کی ہے حکومت کے پاس 53کمپنیوں کی پیشکشیں موجو د ہیں اندازہ یہ ہے کہ اگلے دو مہینوں میں 53کمپنیوں کیساتھ معاہدے ہونگے انگریزی میں ان کمپنیوں کو انڈی پنڈنٹ پاور پرو ڈیو سر (IPP) یعنی آئی پی پی کہا جا تا ہے 2006ء میں جب بجلی کا بحران شدیدصورت اختیار کر گیا تو حکومت نے آئی پی پیز کے ذریعے بجلی پیدا کرنے پر غور کیا 2008کے بعد آئی پی پیز کے ساتھ معا ہدوں کا آغاز ہوا 2015ء میں توا نا ئی کی نئی پا لیسی آگئی جس کے تحت آزاد بجلی گھروں کو مراعات دے کر متبادل ذرائع سے بجلی پیدا کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی 2019ء میں حکومت نے پرائیویٹ سیکٹر کو توانائی کے شعبے میں سر ما یہ کاری کی دعوت دی چنا نچہ 2021میں 53کمپنیوں کے ساتھ معا ہدے ہو نے والے ہیں بجلی کے حوالے سے یہ بات بیحد تشویش نا ک ہے کہ ملک میں جب بھی بجلی کا بحران آیا بجلی گھر بنا نے کے بجا ئے ایک نیا دفتر بنا یا گیا واپڈا کا نا م سب کو معلوم ہے اوگرا کانام بھی عام آد می کے علم میں ہے اس طرح پیسکو، لیسکو، ٹیسکو، حسکو کے ناموں سے بڑے دفاتر بنے ہوئے ہیں نیپرا (NEPRA) پیپرا (PEPRA) پیپکو (PEPCO)پی پی آئی بی (PPIB) ایسے دفاتر ہیں جن کے نا م بھی صارفین کو معلوم نہیں مگر ان دفاتر کے اخراجا ت پر ہر سال کروڑوں روپے لگتے ہیں اگرا ن دفاتر کی جگہ بجلی گھروں پر توجہ دی جا تی تو اب تک ملک بجلی کی پیدا وار میں خود کفیل ہو چکا ہوتا سر کاری میٹنگوں اور اعلیٰ سطح بریفنگوں میں اعداد و شمار کے گورکھ دھندے لائے جا تے ہیں اور حکام کو باور کرایا جا تا ہے کہ بجلی گھر کی ضرورت نہیں ایک اور دفتر کی ضرورت ہے چترال میں 4میگا واٹ کا پن بجلی گھر 2015ء میں سیلاب برد ہوا اس کی بحا لی 6مہینے میں ہو سکتی تھی اب تک اس کی بحا لی پر 38میٹنگیں ہو چکی ہیں مگر بجلی گھر کی مر مت اور بحا لی کا کام شروع نہیں ہوا اعداد وشمار پیش کئے جاتے ہیں پھر ان اعداد و شمار کو تازہ کر کے لا یا جا تا ہے اس وقت ملک میں بجلی کی ضرورت 25ہزار میگا واٹ ہے اس میں گھریلو ضروریات، کمر شل ضروریات اور صنعتی ضروریات سب شامل ہیں موجودہ حا لات میں جو بجلی دستیاب ہے وہ کم و بیش 22ہزار میگا واٹ ہے اس میں 7ہزار میگا واٹ آزاد بجلی گھروں کی بجلی ہے واپڈا کے سابق چیئر مین انجینئر شمس الملک اور دیگر ما ہرین کے مطا بق پا کستان میں بجلی کے بحران میں تین عناصر کار فر ما نظر آتے ہیں پہلے نمبر پر بجلی گھروں کی ناکا فی استعداد ہے مثلاً ایک بجلی گھر 6ہزار میگا واٹ کے لئے بنا یا گیا ہے تو وہ صرف 3ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کر تا ہے دوسرے نمبر پر نا کارہ ٹرانسمیشن لائن کا مسئلہ ہے،ٹرانسمیشن لائن نا کا رہ ہونے کی وجہ سے جو بجلی پیدا ہوتی ہے اس کا نصف لائنوں میں ضا ئع ہو جا تا ہے تیسرا مسئلہ سب سے اہم ہے اس کو پیسے کا حساب کتاب کہا جا ئے تو عام فہم ہو گا انگریزی میں فنا نشیل مینجمنٹ کی نا کامی کہاگیا ہے بجلی کے شعبے میں آمد ن اور اخراجا ت کے حساب کتاب میں اتنا گڑ بڑ ہے کہ اس کا کوئی حساب ہی نہیں اس کا ایک حل پورے سسٹم کی نجکاری ہے دوسرا حل یہ ہے کہ آزاد بجلی گھروں کے ذریعے اگلے 20سالوں میں کھپت سے زیا دہ بجلی پیدا کر کے سسٹم میں داخل کی جائے اور یہ سب سے معقول حل ہے اس وقت ملک میں صرف 27فیصد بجلی پا نی سے پیدا ہوتی ہے 16 فیصد تیل سے، 12فیصد قدرتی گیس سے‘ 26 فیصد ایل این جی سے‘ 9فیصد کوئلے سے، 5 فیصد شمسی اور ہوائی توانائی سے 5فیصد جو ہری ذرائع سے پیدا ہو تی ہے آزاد بجلی گھر متبادل ذرائع پر انحصار کرتے ہیں اس لئے حکومت کا نیا معا ہدہ بجلی کے بحران کا پائیدار حل ثا بت ہو گا۔