شکایت اور شکایات 

 آدمی اگر کام پر نہ جائے۔ کیونکہ اگلے دن چھٹی ہو تو پھر چھٹی کے بعد قدرتی طور پر اس کا جی نہیں چاہتا کہ وہ کام کیلئے نکلے۔ لیکن یہ چھٹی اگر تین دن کی ہو تو پھر کہاں جی چاہے گا کہ بندہ کام کاج کیلئے گھر قدم باہر نکالے۔ گرم گرم بستر کو چھوڑ کر سردی کی یخی میں باہر جائے۔ کیوں نہ گھر کی خوبصورت اور سریلی فضا میں موج مستی کے گیت گاتا رہے۔ بیٹھا رہے۔مگر کام کے لئے مجبوری کے طور پرجانا تو پڑے گا۔ یہ بھی ہے کہ انسان فطرتاً سست اور کاہل واقع ہواہے۔ظاہر ہے کہ یہ رُول اصول توہر آدمی پرلاگو نہیں ہوتا۔مگر ایسا ہو تا ضرور ہے۔اب اگر تصور کریں کہ یہ چھٹی اتنی طویل ہو جائے کہ سال بھر کو ہو۔پھر چھٹی کرنے والوں کا روٹی پانی بھی ان ایام میں یقینی ہو۔ گھر میں ماں باپ ہوں۔ بڑے بھائی وغیرہ ہوں جو کماتے ہوں اور وہ بندہ آرام سے بیٹھ کر زندگی کے مزے اڑاتا ہو۔ پر سال کے بعد اگر اسے کام کاج پر جاناہو تو پھر کہاں اس کا جی چاہے گا کہ وہ اپنی جان جوکھم میں ڈالے۔کیو ں نہ مزید چھٹیاں ہوں اور وہ آرام سے بیٹھ کر چین کی بانسری بجائے۔اس بات کو آگے بڑھاتے ہیں کہ کورونا سے خوف کی حالت میں سٹوڈنٹس کو سال بھر چٹھیاں رہیں۔ کبھی اعلان ہوتا کہ اب سکول کالج کھل گئے ہیں۔ کبھی ڈھنڈورا پیٹا جاتا کہ اب پھر سے ادارے بند ہو گئے ہیں۔ ایسے میں کچھ استحکام ہی نہ تھا کہ سکول وغیرہ کھل جاتے تو پھر ان کے بند ہوجانے کا کوئی امکان نہ ہوتا۔ مگر ایسا ہوا نہیں۔ جس کے نتیجے میں طالب علموں کے مزاج میں سستی آ گئی ہے۔بلکہ رپورٹ یہ بھی ہے کہ جب کوروناکارن سکول دوبارہ سے بند ہوئے تو بچوں نے خوشی کے مارے ہلا گلا کی او رفتح کے نشانات اپنے ہاتھوں کی دو انگلیوں سے بنائے۔ جانے کیوں ہم پڑھنا نہیں چاہتے۔جب ماحول ایسا بن جائے کہ اس میں لاغری اور کاہلی ہو تو چستی و چالاکی خیر باد کہہ دیتے ہیں۔پھر ٹی وی ڈرامو وں اور موبائل کے پے در ے استعمال نے بھی بچوں کا دھیان پڑھائی سے ہٹا دیا ہے۔یہاں وہاں سے شکایات موصول ہو رہی ہیں کہ بچے سکول نہیں جانا چاہتے۔لڑکے کالج نہیں جاتے۔گھر سے نکلتے تو کالج کیلئے ہیں مگر راستے میں کہیں جان بوجھ کر کھو جاتے ہیں۔یہ بہت برا ہے۔ ان کو کتاب اور کاپی کے ساتھ دلچسپی ضرور ہونی چاہئے۔مگر کیا کریں کہ کورونا نے بہت کچھ بدل دیا ہے۔مزاج تک پر اثر انداز ہوا ہے۔ ان کو توروز کے روز پڑھانا ہے۔تب یہ سال بھر کے بعد ذہنی طور پر چابک دست بن جائیں گے۔ کبھی چھٹیاں اور کبھی کہتے کہ سکول آؤ۔ بس ایک تماشا بنا ہواہے۔ اب پھر خدا جانے کب آرڈر جاری ہوتا ہے کہ دوبارہ سکول بند کر دیئے گئے ہیں۔ کیونکہ کورونا میں کمی تو نہیں آئی۔سال تو ہوگیا مگر کورنا کے وار پہلی لہر سے زیاد کار گر اور شد و مد سے جاری ہیں۔اگر یہ حال ہے تو پڑھ لی ہم نے سکولیں۔سال بھر میں بچوں کا رجحان بدل سا گیا ہے۔اب وہ موبائل میں ہمہ وقت کھو جانا چاہتے ہیں اور فلمیں ڈاؤن لوڈ کر کے موبائل میں دیکھناچاہتے ہیں۔زبردستی تو بچوں کو پڑھائی پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔مگر ان میں شوق ہو تو کیا بات ہے۔پھر توکسی زور زبردستی کی ضرورت ہی نہیں ہے۔مگریہاں ہمارے ماحول میں تعلیم کا وہ رجحان نہیں ہے جو باہر کے ملکوں میں ہے۔ جہاں تو بعض ممالک میں سو فی تعلیم کا ریٹ چل رہاہے۔ لیکن اگر کوئی ملک کمزور ہے تو وہاں بھی 90فی صد لوگ تعلیم یافتہ ہیں۔کہیں 80فی صد تعلیم کا گراف اوپر ہے۔یہ تو ماحول کی دین ہوتا ہے کہ آدمی خود بخود پڑھائی کی طرف راغب ہو۔ ہمارے ہاں کاماحول ہمارا ساتھ نہیں دے رہا۔ ہماری ترجیحات کچھ اور ہیں۔ پھر ہمارے ہاں آبادی کا بے تحاشا طور پر زیادہ ہونا بھی ہمارے لئے نقصان دہ ہے۔ کاروبار نہیں ہیں اور کام روزگار نہیں پھر نوکریاں کم ہیں۔ اگر کچھ ہے توآمدن کے ذرائع کم ہیں۔ پھر آمدن کم ہے۔ جس کی وجہ سے سے لوگ فارغ ہیں جوان لڑکے ہیں اور تعلیم سے خالی ہیں۔ایسے میں ہمارا ماحول ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ روٹی کیسے کمانا ہے۔پڑھائی تو دوسرے نمبرپر ہے۔جو ہم نے اب تک اخذ کیا وہ یہ ہے کہ پہلے روٹی پانی کی فکر کرو بعد میں دیکھا جائے گا۔ یہاں اگر پڑھائی کی طرف رجحان پایا بھی جاتا ہے تو اس کامقصد یہ نہیں ہے کہ ہم علم کی خاطر سکول جا رہے ہیں۔ہمارا مقصد تعلیم اس لئے کرنا ہے کہ ہم نے ڈگری سے کام لے کر اچھی نوکری حاصل کرناہے۔یہی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ہماری سوچ میں یہی ہے کہ نوکری حاصل کر لینے کے بعد بچے کی شادی کروا دینی ہے۔ پھر اس کے بعد وہی مسائل جو باپ کو حاصل تھے وہ مسئلے وہ اپنے بیٹے کو بطور وراثت دے کر چلا جاتاہے۔پھر بچے بھی جو شادی کے بعد باپ بن جاتے ہیں تو ہماری طرح پریشان رہتے ہیں۔کسی کی کاپیاں نہیں ہیں توکسی کا یونیفارم نہیں ہے اور کسی کی فیس اداکرنا ہے۔کوئی بوٹوں کیلئے رو رہاہے۔اسی میں ہم لوگ زندہ ہیں اور اسی میں زندگی کے گیارہ دن پورے کر کے مر جاتے ہیں۔