اعلان اور دعویٰ یہ تھا کہ کورونا وبا سے تحفظ فراہم کرنے والی ویکسین سب سے پہلے طبی عملے کو دی جائے گی لیکن برسرزمین حقیقت یہ ہے کہ حکمراں اشرافیہ سے تعلق رکھنے والوں کو ویکسین ترجیحی بنیادوں پر دی جا رہی ہے جس سے متعلق ایک تصویر بطور ثبوت سامنے آنے کے بعد رسمی کاروائی کرتے ہوئے وزرات صحت سندھ نے کراچی کے ضلع شرقی میں ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفس کی ایک اہلکار کو معطل کردیا ہے اور اِس معطلی کی وجہ کوورونا ویکسین سے متعلق ایس او پیز کی خلاف ورزی کرنا ہے۔ اگر مذکورہ تصویر جو کہ واحد ثبوت بذریعہ سوشل میڈیا سامنے نہ آتا جس میں نواز لیگی رہنما اور سابق گورنر سندھ کی بیٹی اور داماد کو ویکسین لگائی جا رہی تھی تو یہ بات نہ تو وفاقی اور صوبائی حکومتیں اور محکمہئ صحت کے حکام تسلیم کرتے۔ کراچی (صوبہ سندھ) میں کورونا ویکسینیشن مہم کا آغاز ہوتے ہی اِس طرح کی اطلاعات زیرگردش تھیں کہ بااَثر افراد اور اُن کے اہل خانہ کو ویکسین فراہم کی جا رہی ہے۔ اندرون و بیرون ملک سے سوشل میڈیا صارفین سابق گورنر سندھ کی بیٹی اور داماد کو لگنے والی ویکسین پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کر رہے ہیں کہ ایک تو اِن افراد سے ویکسین کی پوری قیمت وصول کی جائے اور اِنہیں ویکسین کی دوسری خوراک نہ دی جائے کیونکہ یہ نہ تو طبی عملہ ہیں اور نہ ہی عمر رسیدہ افراد تو آخر انہیں یہ ویکسین کیوں لگائی گئی؟ یہ سوال اپنی جگہ تعجب خیز ہے کہ حکمراں اشرافیہ کو ویکسین کیسے دی جا سکتی ہے جبکہ فرنٹ لائن ہیلتھ ورکرز کو ابھی تک ویکسین نہیں ملی! اس ٹوئیٹر پیغام کے جواب (رد عمل) میں وزیر اعظم کے معاون خصوصی شہباز گل کا بیان سامنے آیا ہے جس میں اُنہوں نے کہا ہے کہ ”وہ مافیا جس نے کورونا پر سب سے زیادہ سیاست کی آج بھی انہیں فرنٹ لائن ہیلتھ ورکرز سے زیادہ اشرافیہ کی فکر ہے فرنٹ لائن ہیلتھ ورکرز سے پہلے وفاق کی طرف سے دی جانے والی ویکسین کیا سیاسی خاندانوں کی فیملیوں کو لگائی جا رہی ہے؟“ اسی تناظر میں نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) کے سربراہ اور وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے اپنے ٹوئیٹر پیغام میں کہا کہ ”شکایت موصول ہوئی تھی کے کورونا ویکسین کراچی میں ہیلتھ کیئر ورکرز کے علاوہ جان پہچان والوں کو لگائی جا رہی ہیں۔ فوری نوٹس لیتے ہوئے آج این سی او سی ٹیم کی فیصل سلطان کی سربراہی میں سندھ حکومت کے نمائندوں سے میٹنگ میں سختی سے صرف ہیلتھ ورکرز کی ویکسینیشن کی تاکید کی گئی ہے۔“ چونکہ اسد عمر نواز لیگی کے رہنما کے بھائی ہیں اور ویکیسن درحقیقت ان کی اپنی بھتیجی اور داماد کو لگائی گئی ہے اِس لئے سوشل میڈیا صارفین سادگی کا مظاہرہ کرنے والے وفاقی وزیر اسد عمر کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں اور وضاحت کے ساتھ یاد دہانی کروائی جا رہی ہے کہ ”وہ جان پہچان والے آپ کے بھائی کی بیٹی اور داماد ہیں مگر آپ نے اپنے رشتوں کا بوجھ بھی سندھ حکومت پر ڈال دیا اور اپنے رشتہ داروں کو کچھ نہیں کہا‘ ذرا سی ان کی مذمت بھی کردیں جنہوں نے خاموشی سے واردات کی ہے!“اہلیت‘ انصاف اور مساوات جیسے تین اصولوں کا پرچار کرنے والی ’تحریک انصاف‘ کو سب سے زیادہ تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور صارفین کڑی تنقید کے ساتھ ناراضگی اور افسوس کے علاوہ اِس بات پر صدمے کا اظہار کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں یا اِس مؤقف کی تائید کر رہے ہیں کہ ”اوّل تو ایسا ہونا نہیں چاہئے تھا اور اگر یہ سچ ہے تو اِس سے زیادہ افسوسناک بات کوئی دوسری نہیں ہو سکتی اور اِسے مجرمانہ فعل میں شمار کیا جانا چاہئے۔“ کورونا وبا کے آغاز (مارچ دوہزاربیس) سے اِس قسم کی خبریں سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں کہ کورونا سے بچاؤ میں استعمال ہونے والے ماسک‘ خصوصی لباس (حفاظتی کٹس)‘ جراثیم کش محلول (سینی ٹائزرز) طبی عملے کی بجائے حکمراں اشرافیہ میں تقسیم کیا گیا اور عوام کی بجائے اشرافیہ سے تعلق رکھنے والوں کے کورونا ٹیسٹ ترجیحی بنیادوں پر کئے جاتے رہے۔ موقع پرست ایک ایسے موقع پر قومی وسائل سے بیجا استفادہ کر رہے ہیں جبکہ ہر دن درجنوں اموات ہو رہی ہیں اور پاکستان میں کورونا وبا سے متاثرہ عوام کی اکثریت بیماری سے تحفظ پانے کیلئے اپنی باری کا انتظار کر رہی ہے۔