نشانِ جمہوریت سے آمریت کی وکیل تک 


 بڑا افسوس ہوتا ہے جب بڑے سمجھے جانے والے لوگ آخر کار بہت معمولی، خود غرض اور جھوٹے ثابت ہو جاتے ہیں۔ آنگ سان سوچی کی کہانی بھی کچھ ایسی ہی ہے۔وہ جلاوطنی ختم کرکے 1988 میں میانمار واپس آئیں اور وہاں قائم فوجی آمریت کے خلاف تحریک شروع کی۔ وہ جمہوریت، آزادی، انسانی حقوق اور امن کی علمبردار بن کر سامنے آئیں۔ ان کی پارٹی نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی نے 1990 میں انتخابات میں کامیابی حاصل کی لیکن فوج نے نتائج قبول نہیں کیے اور اسے گھر میں نظربند کردیا۔ وہ 2010 تک نظربند رہیں لیکن وہ اپنے جمہوری نظریات پر ڈٹی رہیں۔1991 میں ناروے کی نوبل کمیٹی نے فوج کے خلاف ان کی جدوجہد کو "حالیہ دہائیوں میں ایشیاء میں شہری ہمت کی سب سے غیر معمولی مثال" قرار دیتے ہوئے انہیں نوبل انعام دیا۔ 2012 میں انہیں آزادی کا امریکی کانگریس ایوارڈ ملا۔ انہیں فریڈم آف اکسفورڈ ایوارڈ اور ایمنسٹی انٹرنیشل ایوارڈ بھی دیا گیا۔نوبل انعام وصول کرتے وقت ناروے میں تقریر کرتے ہوئے سوچی نے کہا تھا "برما میں بہت سی لسانی قومیتوں اور عقائد کے ماننے والے آباد ہیں اور ان کا مستقبل اتحاد سے بن سکتا ہے۔ ہمارا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ دنیا میں بے گھر، نقل مکانی کرنے والے اور بے یار و مدد گار افراد نہ ہوں اور دنیا کے ہر کونے کے مکین مکمل آزادی اور امن کے ساتھ زندگی گزاریں۔" پوری دنیا انہیں امن حقوق اور آزادی و سیکولرازم کی علمبردار سمجھ کر ان کے حق میں تھی۔ امید تھی کہ وہ میانمار میں جمہوریت کو آزاد کرے گی مگر جب موقع ملا تو انہوں نے جمہوریت کے پر کاٹنے شروع کردیئے۔ وہ تبدیلی کے نام پر آئیں مگر اس کے بجائے خود تبدیل ہوگئیں۔پہلے اقتدار حاصل کرنے اور پھر اسے بچانے کیلئے انہوں نے اپنے نظریات اور اصولوں پر سمجھوتے کیے اور فوج کی خوشنودی کو ترجیح دی۔ وہ فوج کے ساتھ شراکت اقتدار پر راضی ہوئیں۔ پھر انہوں نے میانمار فوج کے ہاتھوں 2017 میں روہنگیا مسلم اقلیت کے قتل عام سے چشم پوشی کی، اس بارے کسی بھی بین الاقوامی تحقیقات سے انکار کیا اور پھر وہ فوج کے ظلم کا دفاع کرنے لگ پڑیں۔بڑی ستم ظریفی تھی کہ کبھی امن اور جمہوریت کی علمبردار آنگ سان سو چی 2019 میں بین الاقوامی عدالت انصاف میں اپنی فوج کے مظالم چھپانے کیلئے اور مظلوم روہنگیا پناہ گزینوں کی اندوہناک کہانیوں کو جھوٹا قرار دینے کی دلائل دے رہی تھیں اور ان مظالم پر ممکنہ پابندیوں اور کاروائی سے چین کی ویٹو طاقت کے ذریعے خود کو بچانے پر خوش تھیں۔اقتدار کے بعد اس کی کایا پلٹ، مفاد پرستی اور جمہوری اصولوں سے انحراف کے باعث وہ دنیا میں تنہا ہوتی گئیں۔ ان کو دیئے گئے ایوارڈز واپس لیے گئے۔ماضی کے برعکس ان کا روہنگیا کے بارے میں لہجہ حقارت انگیز تھا اور وہ شاذ و نادر ہی ان کا نسلی نام استعمال کرتی تھی تاکہ کہیں انھیں شناخت نہ مل سکے۔ ان کا خیال تھا روہنگیا کی حمایت کرنے سے فوج اور اور اکثریتی آبادی دونوں ناراض ہوجائیں گے جو روہنگیا کے خلاف ہیں۔انہوں نے روہنگیا مظالم پر بین الاقوامی تنقید کا کوئی خیال نہیں رکھا اور کہا کہ وہ سیاستدان ہیں نہ کہ انسانی حقوق کی کارکن۔ بدقسمتی سے وہ ان میں سے کوئی بھی ثابت نہ ہوئیں۔ وجہ شاید یہ تھی کہ وہ جب روہنگیا کے خلاف نفرت کی نمائندہ اور ان مظالم پر خاموش تماشائی بن گئیں تو میانمار میں ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا اور ان کی پارٹی نے اس بار پارلیمنٹ کی 476 میں سے 396 نشستیں جیت لیں۔وہ جابرانہ قوانین کو کالعدم قرار دینے یا سیاسی قیدیوں اور میڈیا پر حملوں کے بارے میں بات کرنے میں ناکام رہی۔ بلکہ سول سوسائٹی، صحافیوں اور دانشوروں کیلئے ان کی ناپسندیدگی بڑھتی رہی۔ ان کی حکومت نے ناقدین کے خلاف 251 مقدمات دائر کیے ہیں جو پچھلی فوجی حکومت کے مقابلے میں دگنے ہیں۔آنگ سان سوچی جمہوریت کا نام لے کر آئیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ان کی پارٹی ان کیلئے پیروکاروں سے وفاداری، فرمانبرداری اور شخصیت پرستی کا مرکز بن گئی۔ اس میں جمہوریت نہیں تھی اور انہوں نے اختیارات منتقل کیے نہ جانشین تیار کیے۔نومبر کے انتخابات میں پارٹی کی طرف سے مقرر کردہ الیکشن کمیشن نے متعدد نسلی پس منظر کے لاکھوں لوگوں بشمول مظلوم روہنگیا مسلمانوں کو انتخابات میں ووٹ ڈالنے سے محروم کردیا۔سوچی پر غیر قانونی طور پر امپورٹڈ واکی ٹاکی رکھنے کا الزام عائد کیا گیا ہے جس میں دو سال قید کی سزا سنائی جاسکتی ہے۔ تاہم جمہوریت پسندوں کی نگاہ میں ان کا اصل جرم یہ ہے کہ انہوں نے فوج کے جرائم کا ناجائز دفاع کیا ہے۔مگر اپنے جمہوری نظریات پر سمجھوتوں اور فوج کی خوشنودی کی کوششوں کے باوجود وہ جمہوریت کو بچا سکیں اور نہ ہی اپنے اقتدار کو۔