پاکستان کرکٹ ٹیم نے شائقین کے دل جیت لئے ہیں اور وہ جیت کہ جس کا انتظار سترہ برس سے تھا بالآخر پاکستان کو مل گئی ہے۔ ممکن ہے یہ سترہ سال کا سفر بہت کم لگے لیکن درحقیقت یہ بہت ہی طویل اور تکلیف دہ دورانیہ رہا ہے کیونکہ اِس کا تعلق کھلاڑیوں کی عمروں اور کھیلنے کی صلاحیت سے بھی ہے کہ تاریخ میں چند ہی ایسے کھلاڑی گزرے ہیں جنہوں نے اتنا طویل کیریئر پایا ہو۔ ویسے تو پاکستان کےلئے یہی خوشی کی خبر کافی تھی کہ ٹیسٹ کرکٹ کا ایک بڑا نام (جنوبی افریقہ) طویل عرصے بعد اور مشکل حالات میں پاکستان کا دورہ کر رہا ہے لیکن ٹیسٹ سیریز میں کامیابی خوشیوں کو گویا دوبالا ہی کردیا ہے لیکن محض اِس ایک جیت پر رک جانا اور آگے کے بارے میں نہ سوچنا زیادتی ہوگی۔ اس لئے ضروری ہے کہ ٹیسٹ میں ملنے والی فتح کے چند خوشگوار پہلوو¿ں کا بھی ذکر کرتے ہوئے اس پر کچھ بات کرلی جائے کہ مستقبل کے حوالے سے ہمیں مزید کیا کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ جب نئے چیف سلیکٹر وسیم نے ٹیسٹ ٹیم کا اعلان کیا تھا تو اُن پر کافی تنقید ہوئی تھی اور وہ تنقید ناجائز بھی نہیں تھی کہ پہلی بار نو ایسے کھلاڑیوں کو سکواڈ کا حصہ بنایا گیا‘ جنہوں نے اس سے پہلے کبھی عالمی ٹیسٹ کرکٹ نہیں کھیلی تھی۔ اس تنقید کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ کس طرح شان مسعود‘ حارث سہیل اور عباس جیسے کھلاڑیوں کو ٹیم سے اچانک باہر کیا جاسکتا ہے جو ٹیسٹ کرکٹ میں اچھا تجربہ رکھتے ہوں لیکن وسیم کی خوش نصیبی رہی کہ جن کھلاڑیوں پر انہوں نے بھروسہ کیا‘ وہ سب چیف سلیکٹر کے بھروسے پر پورا اُترے جنوبی افریقہ کےخلاف ٹیسٹ سریز میں پاکستانی کھلاڑیوں نے دباو¿ میں کھیل کر کمال کا مظاہرہ کیا ہے۔ تین کھلاڑیوں (فواد عالم‘ حسن علی اور رضوان) کی جس قدر بھی تعریف کی جائے کم ہوگی۔ اگرچہ سیریز سے پہلے رضوان اچھی فارم میں تھے لیکن اس کے باوجود اب بھی کچھ لوگ سرفراز کے دور میں جی رہے تھے اور رضوان کی ذرا سی کوتاہی اور غلطی ناقابل برداشت ہوتی ہے لیکن فواد عالم اور حسن علی دباو¿ کا شکار تھے۔ فواد عالم کو اب بھی طعنوں کا سامنا ہے کہ جس کو ٹھیک سے کھڑا ہونا نہ آتا ہو‘ اس پر بھلا کیا بھروسہ کیا جائے لیکن کراچی میں کھیلے جانے والے ٹیسٹ میں جن مشکل حالات میں فواد نے سنچری سکور کی‘ وہاں سے معاملات نے کروٹ لی اور اب ہر خاص و عام یہ سمجھ گیا ہے کہ گزشتہ دس سال اس کھلاڑی کو موقع نہ دینا کتنی بڑی (سنگین) حق تلفی رہی۔ دوسری طرف اگرچہ حسن علی قائداعظم ٹرافی میں زبردست کارکردگی کی بنیاد پر منتخب ہوئے مگر پہلے ٹیسٹ میں انتہائی اوسط کارکردگی کے بعد وہ بھی تنقید کی زد میں آئے۔ خیال تھا کہ شاید اگلے میچ میں انہیں موقع نہیں دیا جائے گا لیکن کوچ مصباح الحق نے یہاں ٹھیک فیصلہ کیا اور حسن علی پر بھروسہ کرتے ہوئے واضح انداز میں کہہ دیا کہ حسن علی ابھی کم بیک کررہے ہیں اور ایک میچ سے کسی کھلاڑی کی کارکردگی سے متعلق فیصلہ نہیں کرنا چاہئے۔ ٹیسٹ چیمپئن شپ دنیائے کرکٹ کے لئے ایک خاص اہمیت رکھتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ جنوبی افریقہ کے خلاف مقابلے میں مہمان اور میزبان ٹیم نے شروع دن سے بہت کوششیں کیں۔ قومی ٹیم ابتدا سے مشکلات کا شکار رہی اور جنوبی افریقہ کے خلاف ٹیسٹ سیریز سے پہلے وہ ان مقابلوں کی عالمی درجہ بندی (رینکنگ) میں ساتویں پوزیشن پر تھی لیکن ٹیسٹ سیریز میں کامیابی کے بعد اچھی خبر یہ ہے کہ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے قومی ٹیم کو آٹھ پوائنٹس کی بہتری کے ساتھ رینکنگ میں پانچویں پوزیشن پر فائز کر دیا ہے۔