سمندر کا کنارے ہمیشہ سے ایک کشاکش کا عالم رہاہے ۔پانی کی لہریں سر سے اونچی اٹھتی ہیں ۔پھر سر نیہوڑائے سمندر کے ساحل کی جانب بڑھتی ہیں ۔جہاں ریت پراگر کسی کا نام لکھا ہو تو اسے مٹا ڈالتی ہیں اورکسی کا گھروندہ نو تعمیر ہو تو اسے ہموار کردیتی ہیں۔ یہ جنگ ازل سے جاری ہے اور اب تلک اس میں وہی کشمکش کا عالم ہے۔ کوئی وہاں دل کا نشان بنالیتا ہے اور کوئی وہاں ریت کے گھر بنا کر بیٹھ جاتاہے ۔بچے وہا ں کھیلتے ہیں اور سیر میں مصروف ہوتے ہیں۔ انھیں معلوم ہوتا ہے کہ پانی کی ایک بے نام موج ہمارا بنایا ہوا ریت کا گھروندہ ابھی کے ابھی پریشانی کے عالم میں اڑا ڈالے گی۔ مگر وہ بچے پھر بھی اس عشق سے پیچھے نہیں ہٹتے اور گھر پہ گھر تعمیر کرتے جاتے ہیں ۔وہ اپنا تخلیق کا کام کرتے ہیںاور ہوا کو جو کام سونپا گیا ہے اسے ہوا سرانجام دینے میں ہمہ وقت مصروف رہتی ہے۔ کبھی تو گھروندے مٹتے ہیں اور کبھی سمندر پہ لکھے نام مٹ جاتے ہیں اور کبھی سمندر کے کنارے کسی سوراخ دار چٹان کے نیچے بننے والے بلبلے ہوا چلتے ہی ہوا میں تحلیل ہو جاتے ہیں۔ اتنی سی دیر میں کہ یا توبلبلہ بنا او رہوا کی پھونک سے اڑ گیا۔ یہی زندگی کی کہا نی ہے اور یہی اس کائنات کی داستان ہے ۔شاخِ ہستی پر اگر پھول کھلے تو اس کی بھی مختصر سی داستان ہے ۔ وہ بھی جلدی مرجھا جاتا ہے ۔پھر اگر کچھ روز رہ جائے تو کوئی اسے نوچ کھسوٹ کر اتار کر لے جاتا ہے۔رات کا سماں ہو یادن کی دھوپ ہو ساگر کنارے دل یہ پکارے کہ میرا بنا گھروندا قائم رہے اور میرا لکھا ہوا نام میرا بنایا ہوا نقش پائیدا ر ہوجائے ۔مگر کہاں ۔ایسا ہوتا تو تاحدِنگاہ اس وقت ساحل کی سینکڑوں میل طویل و عریض پٹی پر جا بجا ریت کے بنے بت ہی زمین میں گڑھے ہوتے ۔ ریت سے بت بنانے والے بنا تو لیتے ہیں مگر ان کی پائیدا ری کی ضمانت کسی کے پاس نہیں ہوتی۔ یہی زندگی کی مختصر کہانی ہے ۔ آدمی کوشش کرتا ہے باقی تقدیر پر چھوڑ دیتا ہے ۔ جانے کس کس نے اس ریت پر گھروندے بنائے تھے ۔مگر وہ اب نہیں وہ پانی کی سطح کے ساتھ ریت کا حصہ بن گئے۔مگر اس کا مطلب ہرگز بھی یہ نہیں کہ اب نئے گھروندے نہیں بنیں گے۔گھروندے بنیں گے اورقیامت تک بنتے رہیں گے ۔کیونکہ آدمی نے تعمیر کرنا سیکھا ہے۔دوسری طرف اگر ہوا کو یہ کام سونپ دیا گیا ہے۔ ہوا پل بھر میں ان گھروندوں کو چٹ کر دیتی ہے۔بلبلہ اگر ابھرتا ہے تو اسے ہوا کی لہریں آنِ واحد میں پٹخ دیتی ہے ۔کائنات کے طول و عرض میں یہی کھیل جاری ہے ۔کائنات ایک کھیل ہے ۔ ساحل ویسے کا ویسا ہے ۔ہوا اسی طرح چل رہی ہے۔پانی کی لہریں ساحل سے آکر سر ٹکراتی ہیں ۔یہ کام جاری و ساری ہے اور رہے گا۔ پھر اسی ناپائیداری کے ماحول میں انسان بھی اپنی محبت کے تاج محل تعمیر کرتاہے۔جسے بے باک موجیں اور گستاخ لہریں ہموار کردیتی ہیں۔ مگر محبت کرنے والے کم نہ ہوں گے۔محبتیں انھیں دریا کناروںپر گھروندوں کی طرح تعمیر ہوتی رہتی ہیں اور ہوتی رہیں گی۔نہ ہوا کا چلن ختم ہوا او رنہ ریت کی جبریت تمام ہوئی اور محبت کی فتح یہ ہے کہ گھروندے بھی تعمیر ہونا بند نہیں ہوئے۔ یہی محبت کرنے والے انسان تقدیر کے آگے سینہ تان کرکھڑے ہوجاتے ہےں۔آدمی اگر ہمت ہاردے اور ریت ہوا پانی کو فتح یاب ہونے کا موقع دے ۔وہ اگر نشیمن نہ بنائے کہ گھروندوں کی دشمن ہوا اس کو مٹا ڈالے گی اور پانی کی ایک لہر اس کو اڑا لے جائے گی بہالے جائے گی۔ پھراس سے انسان ہمت ہار بیٹھے ۔ وہ گھر تعمیر کرنا چھوڑدے تو ایسا بھی ممکن نہیں ۔ ” لوگ کہتے ہیں بدلتا ہے زمانہ سب کو۔مردوہ ہیں جو زمانے کو بدل دیتے ہیں“۔اسی ناپائیداری کے میدان میں محبت اور نفرت کی جنگ رہتی ہے ۔طبل بجتے ہیں اور افواج آمنے سامنے آ کر کھڑی ہو جاتی ہیں۔مگر جیت ہوتی ہے تو محبت کی ہوتی ہے۔ وہیں ہوائیں جو گھروندوں کو مسمار کرتی ہیں اورو ہی لہریں جو بلبلوں کو پانی کی نذر کردیتی ہیں ۔ انھیں کے لبوں سے محبت زندہ باد کے نغمے جاری ہوتے ہیں۔محبت زندہ باد کے نعرے ساحلِ سمندر پر چلنے والی ہوا کی سرگوشیوں میں کانو ں کو قوت پہنچاتے ہیں اور دلوں کے تار چھیڑ دیتے ہیں۔ انسان اسی لئے انسان ہے کہ وہ ہمت نہیں ہارتا ۔ کیونکہ دنیاکانظام آدمی کی کوششوں سے قائم ہے۔ اک گھروندا مٹ گیاتو کیا ایک نام الٹ گیاتو کیا ۔ وہیں ایک نام بار بار لکھا جاسکتا ہے۔”اپنا ہی شعرہے ” لہریں بھی شوق سے چلی آئیں ہیں دیکھنے۔ ساحل کی ریت پر جو ترانام لکھ دیا “۔محنت کرنے والے محبت کرنے والے کائنات کی تخلیق کا دست و بازو بن جاتے ہیں۔ ہوائیں لاکھ کوشش میں ہوں اور لہریں سر سے اونچی ہو کر حملہ آور ہوں مگر حوصلہ جوان رکھنے والے ہر بار نئی کوشش کرتے ہیں اور پھر سے گھروندے تخلیق کرتے ہیں یوں کہ ” نشیمن پرنشیمن اس طرح تعمیر کرتاجا۔ کہ بجل گرتے گرتے آپ ہی بیزار ہو جائے“۔ یہی آدمی ہے کہ جس نے کائنات کو تسخیر کیا ہے کائنات کو جیت لیا ہے۔