مجرم کون؟۔۔۔

سیاست صنعت ہے جس کی آڑ میں نہ صرف مالی و کاروباری مفادات کا تحفظ ممکن ہے بلکہ راتوں رات سرمایہ دار‘ معتبر اور بااثر بننے کےلئے اِس سے زیادہ آسان (شارٹ کٹ) کوئی دوسرا راستہ نہیں۔ سیاست میں شفافیت اور سرمائے کا عمل دخل کم کرنے کےلئے ایک سے زیادہ حکومتی ادارے موجود ہیں‘ جن کی غیرجانبداری پر اعتراض سے بچنے کےلئے حالیہ انکشافات ایک راز کی صورت افشا ہوئے ہیں اور کچھ سابق اور موجودہ اراکینِ خیبرپختونخوا اسمبلی کی مبینہ طور پر پیسے وصول کرنے کی ویڈیو منظرِ عام پر آنے کے بعد صوبائی وزیرِ قانون کا استعفیٰ سامنے آیا ہے۔وڈیو جیسے ناقابل تردید ثبوت کے منظرعام پر آنے کے بعد ایک رکن نے دعویٰ کیا ہے کہ انہیں پیسے وزیر اعلیٰ اور اسپیکر خیبر پختونخوا اسمبلی کے حکم پر اُن کے چیمبرز (کمروں) میں نقدی کی صورت دیئے گئے اور یہ رقم مانگی نہیں بلکہ دی گئی تھی۔ جن اراکین اسمبلی کو مذکورہ ویڈیو میں دکھایا گیا ہے انہوں نے کہا کہ یہ دو الگ الگ ویڈیوز ہیں جنہیں جوڑا کر ایسا تاثر دیا گیا ہے جیسے یہ ایک ہی ویڈیو ہو۔ صوبائی وزیر قانون نے اپنی غیرقانونی حرکت سے متعلق کہا ہے کہ اُنہیں اپنے خلاف عائد تمام الزامات جھوٹ ثابت ہونے کا ”یقین“ ہے۔ منظرِعام پر آنے والی اس ویڈیو میں خیبرپختونخوا اسمبلی کے متعدد سابق اور موجودہ اراکین کے سامنے نوٹوں کے انبار لگے دیکھے جا سکتے ہیں تاہم تاحال اس بات کی تصدیق نہیں ہو سکی کہ یہ ویڈیوز کس وقت بنائی گئی تھیں۔ اِس پورے معاملے سے متعلق وزیراعظم عمران خان کے 3 ٹوئیٹر پیغامات سامنے آئے جس میں اُنہوں نے سینیٹ انتخابات میں مبینہ خرید وفروخت سے متعلق پاکستان کے سیاسی نظام کو تنقید کا نشانہ بنایا لیکن ایسا وہ پہلی مرتبہ نہیں کہہ رہے بلکہ تحریک انصاف کی بائیس سالہ تاریخ اور سیاست کا بنیادی نکتہ ہی احتساب اور سیاست کو آلائشوں سے پاک کرنا ہے۔ عمران خان نے یہ دعویٰ دہرایا ہے کہ ”ان ویڈیوز سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ سیاست دان سینیٹ میں کس طرح سے ووٹوں کی خرید و فروخت کرتے ہیں۔“ خیال رہے کہ حکومت کی جانب سے سینیٹ انتخابات 2021ءاوپن بیلٹ سے کرانے کی تجویز دی گئی ہے تاہم اپوزیشن کی جانب سے اس کی مخالفت کی جا رہی ہے۔ حکومت کا سینیٹ الیکشن اوپن بیلٹ سے کرانے کا صدارتی ریفرنس بھی سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے جبکہ سینیٹ الیکشن اوپن بیلٹ سے کرانے سے متعلق صدارتی آرڈیننس بھی جاری ہو چکا ہے تاہم یہ صدارتی آرڈیننس سپریم کورٹ کے فیصلے سے مشروط کیا گیا ہے۔ عمران خان نے اپنی ٹویٹس میں سیاست دانوں پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ ”ہماری سیاسی اشرافیہ پیسے کی مدد سے اقتدار میں آتی ہے اور پھر طاقت کے ذریعے بیوروکریٹس‘ میڈیا اور دوسرے اعلیٰ عہدیداروں کو خرید کر اپنی اجارہ داری قائم کرتی ہے اورپھر قوم کا پیسہ لوٹ کر اسے منی لانڈرنگ کے ذریعے بیرونِ ملک اکاو¿نٹس، غیرملکی اثاثے بنانے میں استعمال کرتی ہے۔“ انہوں نے اپوزیشن اتحاد (پی ڈی ایم) کو بھی آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ ”پی ڈی ایم اس کرپشن دوست نظام کی حمایت کر کے اسے بچانا چاہ رہی ہے۔ ہم کرپشن اور منی لانڈرنگ کے اس نظام کو ختم کرنے کے لئے پرعزم ہیں جو ہماری قوم کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ حکومت کی جانب سے دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ یہ ویڈیو بظاہر دوہزاراٹھارہ میں سینیٹ انتخابات سے پہلے کی ہیں‘ جب خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف مطلوبہ تعداد میں ووٹرز ہونے کے باوجود اپنے دو افراد کو سینیٹر منتخب نہیں کرا پائی تھی اور پاکستان پیپلز پارٹی جس کے پاس مطلوبہ تعداد میں اراکین اسمبلی نہیں تھے لیکن ان کے امیدوار کامیاب ہو گئے تھے۔ اس واقعہ کے بعد صوبائی سطح پر تحقیقات کی گئیں جس میں چودہ اراکین صوبائی اسمبلی پر رقم لینے کا الزام عائد کیا گیا تھا اور ان کی پارٹی رکنیت ختم کر دی گئی تھی۔ تین سال بعد ویڈیو ایسے موقع پر سامنے آئی‘ جب حکومت سینیٹ انتخابات کے بارے میں ایک ایسی قانون سازی کےلئے کوششیں کر رہی ہے جس میں وہ سینیٹ کے انتخاب خفیہ رائے شماری کی بجائے اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانا چاہتی ہے۔ اس بارے میں چند روز پہلے صدر پاکستان عارف علوی کی جانب سے دستخط شدہ آرڈیننس جاری کر دیا گیا ہے۔ اس آرڈیننس کو سپریم کورٹ میں دائر کردہ صدارتی ریفرنس پر پاکستان کی اعلیٰ عدالت کی رائے سے مشروط کیا گیا ہے۔ الیکشن ترمیمی آرڈیننس 2021ءمیں پاکستان کے الیکشن ایکٹ 2017ءکی سینیٹ الیکشن کے حوالے سے تین شقوں (اکیاسی‘ ایک سوبائیس اور ایک سو پچاسی) میں ترامیم کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اگر سپریم کورٹ کی رائے اس کے حق میں ہو گی تو قوانین میں تبدیلی کے ساتھ اوپن ووٹنگ کرائی جائے گی۔سینیٹ انتخابات میں اَراکین اسمبلی کی وفاداریاں اور رائے (ووٹ) خریدنے کا عمل (معاملہ) خاص انتخابی عمل (سینیٹرز کے چناو¿) تک ہی محدود نہیں بلکہ بقول وزیراعظم اِس کے دیگر فریق بھی ہیں تو کیا سیاسی جماعتوں اور ذرائع ابلاغ کا بھی احتساب ہوگا؟ اگر نوٹوں کی گڈیاں لینے والے مجرم ہیں تو کیا یہ گڈیاں دینے والے بھی مجرم قرار پائیں گے؟