مچھلی جل کی رانی۔۔۔۔۔۔

ایک ہی طرح کی خبریں دیکھ دیکھ کر ہم توعاجز آ چکے ہیں۔ وہ بوریت ہے کہ دور ہی نہیں ہوتی۔ ٹی وی آن کرو وہی سیاست کے چوہے بلی کا کھیل ۔وہی دھما چوکڑی کبھی تو چوہے اور بلی کی دشمنی ہے اور کبھی ان کی دوستی ہے۔خواہ کوئی بھی چینل ہو بندہ آخر یکسانیت کا شکار ہو جاتا ہے ۔پھر یکسانیت سے بڑھ کر جیتے جی کوئی اور جہنم نہیں ۔اسی لئے میں آج کل کارٹون دیکھتا رہتا ہوں ۔اس میں اپناایک الگ مزہ ہوتا ہے ۔بندہ دیکھتا جائے اور بور نہ ہو ۔ٹی وی ڈراموں میں بھی ایک ہی طرح کی موویاں بن رہی ہیں۔ بس شکلیں بدل جاتی ہیں ۔کرداروں کا کام وہی ہوتا ہے ۔لگتا ہے ان کے پاس کہانیوں کی کمی واقع ہو چکی ہے ۔ذرا سی تبدیلی کے بعد ایک ڈرامہ دوبارہ نئے سرے سے لگا دیتے ہیں۔ کرداروں کے چہرے بدل جاتے ہیں ان کانظام نہیں بدلتا ۔بچے تو دنیا کے ہر کونے میں موجود ہیں۔ بچوں کے لئے ہر ٹی وی پر کارٹون فلمیں دیکھنے کا بندوبست ہے ۔پھر بڑے بھی کارٹون دیکھتے ہیں۔ کیونکہ ہر آدمی کے اندرایک بچہ چھپا ہواہوتا ہے۔پھر کارٹون دیکھنے کے فائدے بہت ہیں ۔ بچے تو چھوڑ بڑے بھی ان سے اچھا سبق سیکھتے ہیں او رہنسے رہتے ہیں۔نئے نئے آئیڈیے ملتے ہیں۔کتنے انگریزی الفاظ جو بچوں کےلئے آسان کئے گئے ہوتے ہیں وہ سیکھے جاسکتے ہیں۔ کیونکہ بعض آسان ترین الفاظ بڑوں کو بھی معلوم نہیں ہوتے ۔اگر معلوم ہوتے ہیں تو ان کااستعمال کا حال معلوم نہیںہوتا کہ ان کو کیسے استعمال کرنا ہے ۔یہ سب کچھ کارٹون فلموں موویوں سے پتا چلتاہے ۔اب سپائڈر مین نام کی فلم تو بنی تھی مگر اس نام کا کارٹون بھی آگیا ۔ جس سے یہ فائدہ ہوا کہ بچہ اب کارٹون دیکھتا ہے تو امی پوچھتی ہے تم بڑے ہو کر کیا بنو گے ۔وہ جواب دیا ہے کہ میں سپائڈر مین بنوں گا اور دوسروں کی مدد کروںگا۔ اس سے بھلااچھی بات اور کیا ہوگی کہ انٹر ٹینمنٹ کے نام پر بچوں کو اچھی باتیں سکھلائی جاتی ہیں ۔جن کو بڑے بھی سیکھ لیتے ہیں۔کارٹون سے ہٹ کر ٹی وی پرکیا ہے ۔ایک ہی طرح کی گھسی پٹی سیاسی خبریں ہیں۔جن کو دیکھ کر بندہ کڑھتا جلتا رہتا ہے ۔میں تو سمجھتا ہو ںکہ کارٹون بنانے والے بہت بڑی خدمت انجام دے رہے بچہ بھی متاثر ہوتا ہے۔میں کہوں مجھ پر بھی بہت اچھا اثر پڑتا ہے ۔ہنسی الگ آتی ہے اور اندر کی ایک اوربات ہتھے چڑھتی ہے جو ہماری ملکی سیاسی گرم بازاری کا حصہ ہوتی ہے۔بچے تو دنیا کے ہر کونے میں ہیں ۔اس لئے ہر جگہ ٹی وی پر کارٹون لگے ہیں۔ ان کا بچوں پر بہت اچھا اثر پڑتا ہے ۔پھر وہ شرارتیں بھی نہیں کرتے ۔اماں باوا کو پریشان نہیں کریں گے۔ یہ کارٹون دیکھتے رہیں گے اور اماں باوا اپنے کام کاج سر انجام دیتے رہیں گے۔بس کارٹون لگاکر اس بچے کے ہاتھ میں موبائل دے دو جو ابھی بات بھی نہیں کرسکتا بلکہ ٹھیک طریقے سے چل بھی نہیں سکے گا۔مگر امی جان کھانا پکائے گی اور بچے کی ریں ریں کی آواز سے بھی اس کو نجات مل جائے گی مچھلی جل کی رانی ہے ۔اگر مچھلی کو پانی سے نکال دو تو مر جائے گی اور اگر پانی میں ڈالو تو تر جائے گی۔ اس سے بہت ذہن کھلتا ہے ۔اردو ہندی انگریزی دنیا جہاں کے کارٹون ہیں ۔ جانوروں کی شکلیںدکھلائیں گے ان کے نام لیں گے ۔پتا چلے گا کہ ان میں سے ہر جانور کاکیانام ہے۔چھوٹے تو کیا بڑوں کے لئے بھی سیکھنے کا اچھا موقع ہوتا ہے ۔سیاست کے اتار چڑھا¶ کو چھوڑ کراگر بندہ چوہے بلی والا کارٹون دیکھے تو بہت کچھ سمجھنے کو ملا ہے ۔ کیونکہ اول تو دونو ں کی آپس میں دشمنی انتہائی عروج پر ہوتی ہے۔پھریہ دونوں آخرِ کار دوست بھی بن جاتے ہیں۔وہ مصرع یاد آیا کہ ” نہ ان کی دوستی اچھی نہ ان کی دشمنی اچھی“۔معلوم نہیں کہ یہ بلی اور چوہادشمنی میں رہیں تو بہتر ہے یا ان کی دوستی میں کچھ فائدہ ہے۔