الیکشن کمیشن آف پاکستان نے گزشتہ دنوں حیرت انگیز طور پر اچانک قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی پچھلے کئی ماہ سے خالی نشستوں پر ضمنی انتخاب کروانے کا اعلان کرکے سب کوورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے‘یہ اعلان ایسے وقت میں کیاگیا ہے جب ایک جانب الیکشن کمیشن نے کورونا وباءکی وجہ سے ملک بھر میں دو قومی اسمبلی اور چھ صوبائی ا سمبلیوں کی خالی نشستوں پر الیکشن روک رکھے تھے حالانکہ قانون کے تحت قومی اور صوبائی اسمبلی کی خالی ہونے والی کسی بھی نشست پر 60دنوں کے اندر اندر ضمنی الیکشن کروانا ضروری ہے لیکن الیکشن کمیشن کورونا وباءکی وجہ سے ان خالی حلقوں پر ضمنی انتخابات کرانے سے گریز کررہاتھا لیکن اب اچانک ضمنی انتخابات کے اعلان کی کڑیاں مارچ میں ہونے والے سینیٹ کے انتخابات سے جوڑی جا رہی ہیں ۔میڈیا رپورٹس کے مطابق ضمنی انتخابات کے انعقاد کا یہ فیصلہ جہاں سینیٹ کے الیکٹورل کالج کی تکمیل کی راہ ہموار کرے گاوہاں اس سے ایک آئینی تقاضے کی تکمیل بھی ہوسکے گی‘الیکشن کمیشن کے مطابق کرم سے 27 امیدوار الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں جن میں جمعیت(ف)کے جمیل خان،اے این پی کے نوروز خان،پیپلز پارٹی کے رفیع اللہ اور پی ٹی آئی ملک فخر زمان خان کے علاوہ ایک غالب اکثریت آزاد امیدواران کی ہے جبکہ پی کے 63 نوشہرہ پر 4 امیدواران کے درمیان مقابلہ ہو گا جن میںمیاں محمد عمر کاکا خیل پی ٹی آئی، اختیار ولی پی ایم ایل این،میاں وجاہت اللہ کاکاخیل اے این پی اورثناءاللہ جان ٹی ایل پی کے ٹکٹ پر قسمت آزمائی کررہے ہیں۔ان ضمنی انتخابات کے حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ پی ڈی ایم کی سربراہ جماعت جے یو آئی جو پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے ضمنی انتخابات لڑنے کے قطعاً حق میں نہیں تھی گزشتہ دنوں ضمنی انتخابات کے اعلان اور بعد ازاں پی ڈی ایم کی دوبڑی پارٹیوں مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کی جانب سے ان ضمنی انتخابات میںحصہ لینے کے فیصلے پر پہلے تو ان دونوں جماعتوں کوخوب کوستی رہی لیکن بعد میں مرتے کیا نہ کرتے کے مصداق اسے بھی انتخابات لڑنے کا فیصلہ کر ناپڑا۔ ان ضمنی انتخابات کا ایک دوسرا دلچسپ پہلو اس میں اگر ایک طرف پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کا ڈنکے کی چوٹ پر حصہ لینا ہے تودوسری جانب پی ڈی ایم کی جماعتوں میں پائی جاے والی ’ہم آہنگی‘اور ’قربت‘ کااندازہ ان جماعتوں کا ان آٹھ نشستوں پر ایک دوسرے کے مدمقابل اپنے امیدواران میدان میں اتارنے سے بھی لگایا جا سکتا ہے حالانکہ پی ڈی ایم کے چارٹر اور جدوجہد کا تقاضہ تو یہ تھا کہ اولاً تو اس میں شامل جماعتوں کو ان ضمنی انتخابات میں سرے سے حصہ ہی نہیں لینا چاہئے تھا لیکن اگر یہ حصہ لینا ناگزیرہی تھا تو پھر اصولوں اور اخلاقیات کا تقاضہ یہ تھا کہ یہ جماعتیں پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے ان انتخابات میں اترتیں لیکن ان کی اس تنہا پرواز نے جہاں ان کی جاری تحریک کوایکسپوز کردیا ہے تو دوسری جانب یہ جماعتیں عوام حتیٰ کہ اپنے کارکنان کی نظروں میں گرنے سے بھی خود کو نہیں بچا سکی ہیں۔دوسری جانب کہاجارہا ہے کہ این اے 45 کرم اور پی کے 63 نوشہرہ کی نشستوں پر منعقد ہونے والے ضمنی انتخابات بنیادی طور پر حکومت بمقابلہ اپوزیشن ہونگے کیونکہ ان دونوں ضمنی انتخابات میں بنیادی طور پر دوہی فریق مدمقابل ہیں البتہ سیاسی مبصرین اس بات پر متفق ہیں کہ اگر اپوزیشن جماعتیں ان انتخابات میں متحد ہوکر حکومتی امیدواران کا مقابلہ کرتیں تو اس اتحاد کے بہتر نتائج یقیناً اپوزیشن جماعتوں کے حق میں نکل سکتے تھے۔واضح رہے کہ این اے45کی نشست پر 2018کے عام انتخابات میں متحدہ مجلس عمل کے منیر اورکزئی کامیاب ٹھہرے تھے اور وہ اس نشست پر 2002اور2008کے انتخابات میں بھی کامیابی حاصل کر چکے تھے البتہ2013 میں یہاں الیکشن نہ ہونے کے باعث یہ حلقہ پانچ سال تک عوامی نمائندگی سے محروم رہاتھا۔جبکہ دوسری جانب پی کے 63 نوشہرہ کی صورت حال یہ ہے کہ مذکورہ نشست پر عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کے میاں جمشید الدین کاکاخیل کامیاب ہوئے تھے جو کورونا کا شکار ہوکر دنیا سے رخصت ہوئے، مذکورہ نشست پر عام انتخابات کے دوران پاکستان مسلم لیگ ن کے اختیار ولی خان رنر اپ تھے شاید ان کی اس مقبولیت کے زیر اثر ہی پیپلز پارٹی اور جمعیت(ف) نے اس حلقے پر اپنے امیدواران میدان میں نہیں اتارے بلکہ یہ دونوں جماعتیں یہاں مسلم لیگ(ن) کی حمایت کررہی ہیں البتہ اے این پی نے یہاں سے اپنے امیدوار کی دستبراداری کی مسلم لیگ(ن) کی درخواست کوتاحال درخور اعتناءنہیں سمجھا یاد رہے کہ اس نشست پر 2013 اور 2018کے انتخابات میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر میاں جمشید الدین کاکاخیل کامیاب ہوئے تھے جن کی وفات کے بعد اب اس نشست پر ان کے برخوردارمیاں محمد عمر کاکاخیل قسمت آزمائی کررہے ہیں سیاسی مبصرین اس بات پر بھی متفق نظر آتے ہیں کہ 19 فروری کو ان دونوں حلقوں میں جہاں اپوزیشن اور حکومتی امیدواران کے درمیان گھمسان کا رن پڑنے اور کسی اپ سیٹ کا بھی امکان ہے‘اگر چہ سیاست میں کوئی بھی چیز حرف آخر نہیں اور حالات کسی بھی وقت پلٹا کھا سکتے ہیں تاہم عوام ان ہی کو شرف قبولیت بخشتے ہے جو منتخب ہونے کے بعد بھی ان کی دسترس میں رہیں اور ایسے امیدوار جو منتخب ہونے کے بعد عوام سے دور ہو جاتے ہیں جلد ہی ماضی کا حصہ بن جاتے ہیں۔