گملوں کے پھول کملا گئے۔۔۔

یہ کیا ہوگیا ہے ‘سب کچھ تڑی بڑی ہو گیا ہے ۔ہائے کیا آنگن تھا ۔ اب تو صحن کے گملوں میں پھول کملا گئے ۔خزاں نے وہ گل کھلایا کہ پھول زمین پر آ رہے۔پا¶ںتلے روندے گئے کچلے گئے۔یہ معاشرت تو استحکام کے لئے ترس گئی ہے۔ یہاں دکاندار اور گاہک کے معاملات الگ ہیں۔سارے کے سارے ایک جیسے نہیں ۔اس لئے انھیں ایک ہی لاٹھی سے ہانکنا درست نہ ہوگا۔ کیونکہ ہاتھ کی پانچوں انگلیا ں برابر نہیںہوتیں ۔اچھے برے ہر جگہ ہوتے ہیں۔مگر دیکھا گیا ہے کہ دکاندار گاہک کی زیادہ سے زیادہ رقم پر ہاتھ صاف کرنا چاہتا ہے۔دوسری طرف گاہک کی کوشش ہوتی ہے کہ کم پیسے دوں اور اپنی ضرورت کا سامان خرید لوں ۔کیونکہ اب تو گاہک کو دکاندار پر بالکل اعتبارنہیں رہا۔ تھوک کے حساب سے خریدے گئے سستے مال پر اپنا بنایا ہوا چھوٹاسا لیبل لگا کر اس پر زیادہ قیمت لکھ دیتے ہیں۔ لالچ بھی ایک چیز ہے کہ ایک دکاندار اپنی کوشش کر کے زیادہ رقم کمانا چاہتاہے ۔سودے بازی دراصل دکاندار اور گاہک کے درمیان ایک گیم ہے۔دونوں ایک دوسرے کو شکست دینا چاہتے ہیں ۔یا دونوں ایک دوسرے کو دھوکادینا چاہتے ہیں ۔ دکاندار اپنے مال کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتا ۔جب کہ گاہک دکاندار کی آنکھوں میں دھول جھونک کر یہ مال کم سے کم قیمت پر خریدنا چاہتا ہے ۔ اس وجہ سے دکاندار کی تعریف کے سامنے اس کے مال کو کم تر ظاہر کرتا ہے۔اس کی کوشش ہوتی ہے کہ دکاندار کا دل ٹوٹے اور میری آفر کی ہوئی قیمت پر مجھے مال مہیاکر دے ۔جبکہ دکاندار کی سر توڑ کوشش ہوتی ہے کہ وہ گاہک کا دل بڑھائے تاکہ وہ اس مال کو خرید لے ۔ اگرسیل مین کے آکٹوپسی والے پنجے میں سے گاہک نکل جائے تو مالک کو تپ چڑھ جاتی ہے ۔غصے کے عالم میں منہ سے جھاگ نکلتا ہے ۔ تمہارے ہاتھوں سے گاہک کیسے نکل گیا۔ وہ جواب دیتا ہے کہ میں نے بہت کوشش کی مگر وہ لینا ہی نہیں چاہتا تو میں اس کو کیسے مجبور کرتا۔صاحبان ! پھر یہاں مال کون سا اصلی ہے ۔ہر طرف بربادی پھیلی ہوئی ہے ۔ مکھن ہے تو اصلی نہیں ۔بعض پرصاف لکھاہوتا ہے یہ مکھن نہیں ہے ۔مگر پھر بھی گاہک خرید فرماتے ہیں ۔کیونکہ وہ مجبور ہیں ۔ بعض دودھ کے ڈبے پر لکھا ہوتا ہے کہ یہ دودھ نہیںہے مگر لوگ اس سستے دودھ کو خریدنے پر مجبور ہیں۔ یہ اتنا باریک لکھا ہوتا ہے کہ اس کو عام آدمی جو چالیس سے اوپر کا ہے قریب کی نظر خراب ہونے کی وجہ سے پڑھ نہیں سکے گا۔ کیونکہ عام طور سے عقل بھی تو کہتے ہیں کہ چالیس سال کی عمر آتی ہے اور اسی ایج میں عقل داڑھ بھی نکلتی ہے۔ قریب کی نظر بھی عمر کے اسی حصے میں کمزور ہو جاتی ہے۔انڈے تک پلاسٹک کے فروخت ہو رہے ہیں۔ ایک نمبر میں بھی دونمبر چیزیں مل رہی ہیں ۔ پھر دو نمبر میں ایک نمبر والی چیز دستیاب ہے ۔دوا ہے تو اس میں چکر چلایا گیا ہے۔دوا¶ں کی قیمتیںالگ سے زیادہ ہو چکی ہےں ۔ایک دوا چار گنا مہنگی ہو چکی ہے ۔پھر ان ادویہ کا وزن بھی تو پہلے سے کم کر دیا گیاہے ۔کسی خریداری کامزہ نہیں ۔چکن الگ سے مردہ خرید تے ہیں اور زندہ کے حساب سے بیچتے ہیں ۔اب کس کو پتا کہ اس ذبح کرتے وقت تکبیر پڑھی گئی ہے کہ نہیں ۔ مردہ گائیں بھی خاص شہر کے دل میں لا کر بوٹی بوٹی کر کے بیچی گئی ہیں۔ یہ جو پکڑی گئی ہیں ان کی بات ہے ۔مگر جو اس وقت مردہ گائے کا گوشت خدا جانے کہاں کہاں بیچا جا رہا ہوگا۔ لاکھوں دکانیں لاکھوں بازار ہیں ۔ان کا بس نہیں چلتا کہ مال بھی فروخت نہ کریں او رگاہک کی جیب سے زبردستی رقم نکلوا لیں۔ایک اودھم مچا ہواہے ۔مزدوروں کو کم سے کم معاوضہ دیا جاتا ہے ۔اگر مزدور کم اجرت پر راضی نہ ہو تو مالک دوسر ے مزدور کو کرایے پراٹھالے گا۔ سو اس لئے ہر مزدور مجبور ہے کہ شام کو خالی ہاتھ گھر نہ جائے۔آوے کا آوے بگڑا ہواہے ۔دو نمبر سامان ہیںجو بیچے جارہے ہیں۔ قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔دکانداروں پر جو اضافی ٹیکس لگائے گئے ان کی وجہ سے بعض دکانداروں کا اپنے گاہکوں کے ساتھ رویہ ظالمانہ ہے ۔وہ اپنا بخار اپنا خرچہ گاہک سے دھوکہ دہی میں نکالنا چاہتے ہیں ۔پھر گاہک غربت اور کم آمدن کی وجہ سے مجبور ہے کہ اگرراز جان جائے مگر پھر بھی جعلی چیز خرید لے گا۔ روٹی اور آٹے میں بھی چالاکیاں دکھلائی ہیں ۔روٹی ایک گھنٹہ باقی رہ جائے تو گتے جیسی سخت ہو جاتی ہے۔تندور والے سے شکایت کرو تو کہتا ہے کہ ہم کیا کریں ہمیں جو آٹا آگے سے آتا ہے ہم وہی بیچیں گے۔ آپ کی پسند کی روٹی کہاں سے لائیں۔یا مال دو نمبرہے یا اگر اصلی ہے تو اس کی قیمت زیادہ ہے ۔پھر قیمت زیاد ہ ہوکر بھی مال کی شکل باہر سے بھری بھری ہے مگر ہاتھ میں تھام لو تو ہلکی ہلکی ہے ۔بعض دوا کی بوتلوں میں سیرپ کم کر دیا گیا ہے ‘ جس کا جو جی میں آتا ہے کرتا ہے ۔کوئی روک ٹوک نہیں ۔ اگر گاہک کو اعتراض ہوگا تو دوسری دکان پر جائے گا مگر صورتِ حال وہاںبھی وہی ہوگی جو پچھلی دکان پر چھوڑ کر آیا تھا۔