کشمیر تقسیم برصغیر کا نامکمل حصہ اور تصفیہ طلب مسئلہ ہے۔ یہ 73 سال سے اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر موجود ہے مگر تقریباً ایک لاکھ شہادتوں، کئی پاک بھارت جنگوں اور ممکنہ ایٹمی جنگ کے خطرے کے باوجود کشمیریوں کو ابھی تک وعدے کے مطابق حق خود ارادیت نہیں مل سکی۔ اس کی وجہ کیا ہے؟بظاہر اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ اور برطانیہ سمیت اکثر مسلم اور غیر مسلم ممالک بھارت پر تنقید کرکے اسے ناراض کرنے اور یوں اس کی ایک ارب تیس کروڑ آبادی والی بڑی مارکیٹ سے محرومی کےلئے تیار نہیں ہیں۔ چنانچہ بھارت جری ہوتا گیا اور اگست 2019 میں اس نے کشمیر کو رسمی طور پر اپنے یونین کا حصہ بنادیا اور کشمیریوں پر ظلم و ستم کی انتہاکردی۔پاکستان اور بھارت ایٹمی طاقت ہیں۔ یہ مسئلہ حل نہ ہوا تو دونوں کے مابین مستقبل میں ممکنہ جنگ خطے اور عالمی امن کےلئے انتہائی خطرناک ثابت ہوگی۔ اس لیے اقوام متحدہ، امریکہ، برطانیہ اور دیگر بڑے ممالک جب مذاکرات کے ذریعے پرامن انداز میں کشمیر سمیت متنازعہ مسائل حل کرنے کی بات کرتے ہیں تو ٹھیک ہی کرتے ہیں۔مگر مسئلہ یہ ہے کہ بھارت اپنے کردار اور حقائق سے چشم پوشی کرتے ہوئے پاکستان پر ریاستی دہشت گردی کا الزام عائد کرتا ہے اور پاکستان سے بات کرنے کےلئے تیار نہیں ہے۔ ایسے میں پاکستان اقوام متحدہ اور امریکہ و برطانیہ سمیت تمام بڑے ممالک پر بجا طور پر کہتا ہے کہ وہ دونوں ملکوں کے مابین ثالثی کروائیں مگر بھارت کشمیر کو دونوں ممالک کے درمیان باہمی تنازعہ قرار دے کر کسی بھی بین الاقوامی ثالثی کو ماننے سے انکار کرتا آیا ہے۔چنانچہ جب امریکہ اور برطانیہ ہندوستان اور پاکستان کو باہمی بات چیت کے ذریعے اپنے تنازعات حل کرنے، کشمیر پر ثالثی کرنے اور وہاں ہونے والے مظالم پر بھارت کی مذمت کرنے سے پہلوتہی کرتے ہیں تو وہ دراصل بھارت کی حمایت کررہے ہوتے ہیں۔ آخر پاکستان اور بھارت اپنے تنازعات کو پر امن طریقے سے اور باہمی بات چیت سے کیسے حل کرسکتے ہیں جب بھارت پاکستان سے خود بات کرنے اور کسی بیرونی ثالثی کو ماننے کےلیے تیار ہی نہیں ہے۔امریکہ اور برطانیہ اکثر کہتے ہیں وہ کشمیر میں تشدد سے پریشان اور اس کا خاتمہ چاہتے ہیں مگر باوجود اس کے کہ بھارت واضح طور پر اقوام متحدہ کی کشمیر کے بارے میں متعدد قراردادوں کی خلاف ورزی کرتا آیا ہے، اس کے رہنما 1971 میں پاکستان کو توڑنے میں مدد دینے کا اعتراف کرچکے اور اس کی خفیہ ایجنسی کے کارندے یہاں دہشت گردی کرتے ہوئے گرفتار ہوچکے، اسے دہشت گرد کہا جاتا ہے نہ اس پر پابندیاں لگاءجاتی ہیں، نہ اس کی مذمت کی جاتی ہے اور نہ مظلوم کشمیریوں کی خود ارادیت کی حمایت کی جاتی ہے جس کا وعدہ ان کو اقوام متحدہ کی اٹھارہ قراردادوں میں کیا گیا ہے۔برطانیہ تو کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کا اخلاقی طور پر بھی پابند ہے کیوں کہ یہ مسئلہ اس کی پالیسیوں اور حد بندی کمیشن کے فیصلے سے پیدا ہوا ہے لیکن وہ بھی اب تک اپنی اخلاقی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام رہا ہے۔بات بڑی واضح ہے کہ کشمیر بھارت کی ضد اور انسانی حقوق کے عالمی ٹھیکیداروں کی چشم پوشی کی وجہ سے ابھی تک حل طلب ہے اور جب تک بڑے ممالک بھارت کو مجبور نہیں کریں گے کشمیریوں پر ظلم و ستم جاری رہے گا اور انہیں آزادی نہیں مل سکے گی۔کشمیر برصغیر کی ان 565 شاہی ریاستوں میں سے ایک تھا جن کے پاکستان یا بھارت سے الحاق کےلئے برطانیہ نے پاکستان اور بھارت کے اتفاق سے دو اصول متعین کیے تھے۔ ایک یہ کہ کسی ریاست میں مسلمانوں کی آبادی زیادہ ہوگی تو وہ پاکستان میں اور اگر غیر مسلموں کی زیادہ ہوگی تو وہ بھارت میں شامل ہوگی۔ دوسرا اصول یہ تھا کہ جو ریاست جغرافیائی طور پر پاکستان سے جڑی ہوگی وہ پاکستان میں اور جو بھارت سے قریب ہوگی وہ بھارت میں شامل ہوگی۔کشمیر مسلم اکثریتی علاقہ تھا اور اس کی سرحد پاکستان سے ملتی تھی۔ اس لیے اسے پاکستان میں شامل ہونا چاہئے تھا۔ اس کی سرحد سے بھارت کا قریب ترین فاصلہ تین سو کلومیٹر تھا مگر ریڈکلف نے گورداسپور کا ضلع بھارت کو دے کر کشمیر سے اس کا چھوٹا سا زمینی راستہ اور رابطہ بنالیا۔ کشمیر کے راجہ ہری سنگھ نے بھارت یا پاکستان دونوں کے ساتھ حالات جوں کے توں رکھنے کا معاہدہ کرلیا مگر پھر بھارت سے الحاق کا اعلان کردیا۔ بھارت کے بقول مہاراجہ ہری سنگھ نے ہمارے ساتھ الحاق کا اعلان کیا ہے اس لیے بھارتی فوجیں کشمیر پہنچ گئیں۔ اس پر دونوں ملکوں کے درمیان 1948 میں جنگ ہوئی۔ بھارت کو اپنی شکست نظر آئی تو یہ اقوام متحدہ چلاگیا۔ اقوام متحدہ نے فائر بندی کروائی اور استصواب رائے کے ذریعے کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کا فیصلہ کیا جسے بھارت اور پاکستان دونوں نے مان لیا۔ فائر بندی کی نگرانی کےلئے اقوام متحدہ کا فوجی مبصر مشن برائے پاکستان و بھارت بنایا گیا جو ابھی تک موجود ہے۔ 1948سے 1971 تک اقوام متحدہ نے کشمیر پر اٹھارہ قراردادیں پاس کی ہیں۔ ان کے تحت اقوام متحدہ کا کمیشن برائے پاکستان و بھارت بنایا گیا جس کے ساتھ بھارت اور پاکستان دونوں کام کرتے رہے۔ بھارت 1956 تک کشمیر میں اقوم متحدہ کی زیر نگرانی استصواب رائے کا وعدہ کرتا رہا۔ جواہر لعل نہرو نے اقوام متحدہ میں کہا تھا۔”ہمارا دنیا اور کشمیریوں سے وعدہ ہے کہ کشمیری اپنے مستقبل کا فیصلہ استصواب رائے میں کریں گے۔ اگر کشمیری ہمارے ساتھ نہیں رہنا چاہتے تو وہ اپنی راہ لیں گے اور ہم اپنی۔ ہم زبردستی کا نکاح نہیں کرنا چاہتے نہ زبردستی کا اتحاد بنانا چاہتے ہیں۔“ 1956 تک بھارت اس وعدے پرقائم رہا مگر اس کے بعد اس نے کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ کہنا شروع کردیا۔ 1972 میں شملہ معاہدہ کے بعد بھارت کے بقول کشمیر ایک دوطرفہ تنازعہ بن گیا۔ مگر وہ بھول جاتا ہے کہ اقوام متحدہ کے چارٹر کی دفعہ 103 کے تحت اقوام متحدہ کے رکن ممالک کی ذمہ داریاں ان کے کسی دوسرے معاہدے (مثلاً شملہ معاہدہ) کے تحت ذمہ داریوں پر سبقت رکھتی ہیں اور یہ کہ جب کسی دوسرے معاہدہ اور اقوام متحدہ کے چارٹر میں تناقص ہو تو اقوام متحدہ کا چارٹر اور اس کے فیصلے نافذ اور حاوی رہتے ہیں۔کشمیر کے راجہ کی جانب سے اپنے ساتھ الحاق کو جواز بناکر بھارت نے کشمیر پر قبضہ جمالیا مگر جب جوناگڑھ اور حیدرآباد کے مسلم حکمرانوں نے پاکستان سے الحاق کا اعلان کیا تو بھارت نے وہاں یہ دلیل دے کر، کہ ان دونوں ریاستوں میں ہندو اکثریت میں ہیں اور یہ ہمارے قریب ہیں اس لیے ان کے نواب پاکستان سے الحاق نہیں کرسکتے، ان پر قبضہ کرلیا۔ کشمیر اور جوناگڑھ و حیدر آباد کے مسئلوں پر یہ بالکل متضاد موقف اختیار کرنا بھارت کی جانب سے چنیدہ اخلاقیات کی بدترین مثال ہے۔