شہرکی گھٹن  

آپ شاید سوچیں کہ میں گھر سے نکل تو رہاہوں مگر اُس راہ سے ہو کر جاؤں گا جہاں رش نہ ہو۔ آپ اس راستے پر چلے بھی جائیں گے مگر جب آگے ہوں گے تو حیرانی کامقام آتا ہے۔پھر ہنسنے کی بات ہے بلکہ رونے کا مقام ہے کہ وہ چورراستہ بھی بھیڑ بھاڑ کی گردسے اٹا پڑا ہو تا ہے۔اس موقع پر بندہ عاجز ہو جاتا ہے کہ واہ رے تقدیر کہاں لا پھنسایا۔ اب میں کیا کروں۔کدھر کو موڑ کاٹوں۔ ”کھاؤں کدھر کی چوٹ بچاؤں کدھر کی چوٹ“۔جسے ہارن بجانے کاشوق نہ ہو اسے ہارن سننے کا بھی حوصلہ نہیں ہوتا۔ ہارن پہ ہارن بجیں گے۔گدھا گاڑیاں تک گھسی ہوں گی۔ہتھ ریڑھیاں بھی درمیان ہوں گی۔سوزوکیاں منہ چڑا رہی ہوں گی۔ایک آدھ تانگہ بھی اس جدید زمانے میں کہیں سے بھولے بھٹکے آ گیا ہوگا۔ پھر بائیکوں کا تو ڈھیر لگا ہوگا اور رکشے تو ان گنت ہوں گے اور چنگ چی تو بے شمار سرِبازار ابھی کے ابھی دھکم پیل کرتے جھپاک سے گز رتے ہوں گے۔راستے بند اس لئے بھی ہوں گے کہ سڑک کنارے دہی بھلے کی ریڑھی کے پاس بند دکان کے تھڑے پر جوان لڑکے بیٹھ کر اوپر تلے پلیٹیں صاف کر رہے ہوں گے۔مگر ان کے بائیک سڑک پر آڑھی ترچھی کھڑے ہوں گے۔جس نے جو چاہا کر دیا۔ ہجوم ہے کہ جس کا سرا نہ ملے۔گاڑیوں کا جلوس ہے کہ جس کا انت نہ ہو۔یہ رش پیدا نہیں ہوئی اس کو بنایا گیاہے۔ سوک سینس تو گیا خاک ہوا۔ یہ بھلاکس چڑیا کانام ہوگا۔اس کو بھلاکون جانتا ہے۔میں تو کہتا ہوں کہ اگر مڈل کے کورس کسی کتاب میں اگر ٹریفک اور شہری کا مضمون نصاب میں شامل نہیں کرتے تو نہ کریں۔ مگر وہ سکالربالفرض جسے پی ایچ ڈی کرنے کے لئے کسی موضوع کی تلاش ہو تو ازراہِ کرم وہ پشاور کی ٹریفک بدحالی پر ایک آدھ مقالہ ضبطِ تحریر میں لے آئے۔یہ نہیں کہ یہ اس شہر کی طرح تنگ اور کم مواد کا ٹاپک ہوگا۔ شہر ضرور تنگی ئ داماں کا شکار ہے اس کی گلیاں‘کوچے‘سڑکیں اور راہیں چوک لازمی تنگ و تاریک ہیں مگر یہ موضوع اپنی جگہ بہت وسیع ہے۔اگر اس کی تفصیل میں جانا چاہیں گے تو آپ کو اتنا مواد ملے گا کہ سمجھو آئیڈیاز کی بارش ہوگی۔نہ تو دن کو ان کو آرام ہے اور نہ رات کو انھیں چین حاصل ہے۔پھر نہ صبح دیکھتے ہیں او رنہ شام کا لحاظ ہے۔ ایک طوفانِ بیکراں ہے اورایک موج ِ بے آرام ہے۔ سڑکوں پر گاڑیوں کی لائنیں لگی ہیں۔دو چار پولیس کارندے ہیں اور کچھ ٹریفک سپاہی۔ جو پورے شہر کو کنٹرول کرنے نکلے ہیں او ردیکھتے دیکھتے کھڑے کے کھڑے رہ گئے۔پھر ان کی پروا بھی کون کرتا ہے۔نشتر آباد کی کمپیوٹر مارکیٹ کا چوک ہے۔ وہاں کے رش پر قابو پانے کے لئے فقط ایک سپاہی کھڑا ہے۔مگر بعض بے فکرے اور لاپروا جوانی کی دہلیز سے تازہ ترین گز رنے والے ان کے ہاتھ کے ٹریفک اشارے کو ہوا میں اڑاتے ہوئے نکل جاتے ہیں۔ ٹریفک سگنل بھی تو نہیں ہیں۔اگر ہوتے کیا ہوتا۔لوگ تو جیتے جاگتے ٹریفک وارڈن کو اگنور کر دیتے ہیں۔ پھر ایسے عالم میں سرخ بتی کو کون پوچھتا ہے۔ایسا بے ہنگم ٹریفک کا شہرہے اورلاپروا باسیوں کا مسکن ہے کہ ورسک رو ڈ‘ ڈیفنس چوک پرٹریفک کی سرخ بتی کے عین نیچے ٹریفک پولیس اہلکار کھڑا ہوگا۔ سرخ بتی جلے گی تو وہ بھی ہاتھ اٹھا کر اشارہ کرتے ہوئے گاڑیوں کو روکے گا۔ مطلب یہ کہ اگر یہ باوردی اہلکار نہ ہوتے تو یہ سرخ اشارے کو ہری جھنڈی سمجھ کر گزر جاتے۔ میں لاپروا اس لئے لکھ رہاہوں کہ لاپروا او ربے پروا میں فرق ہوتا ہے۔بے پروا میں پروا ہوتی ہے جو عارضی طور پر معطل ہوتی ہے۔لاپروا میں پروا تو سرے سے موجود نہیں ہوتی۔لاپروا نے زندگی بھر کبھی پروا کی نہیں ہوتی اور کبھی پروا کرنے کا اس میں کوئی امکان بھی نہیں ہوتا۔حیات آباد میں تھانہ حیات آباد کے پاس سرخ اشارہ بھی جل رہاہے اور ٹریفک سپاہی بھی یہاں سے وہا ں چل رہاہے۔اگر وہاں یہ ٹریفک کاردا ر نہ ہو یہاں کا ٹریفک کبھی نہ رکے۔چلتا رہے اورچلتا پھرتا رہے الجھتا رہے اور سمٹ کر خود بخود پھیلے اور پھیل کر آپ سمٹ جائے۔ ان کی منشا یہ ہے کہ ہمارے اوپر کوئی نگران مقرر نہ ہو۔ہم جو من میں آئے وہ کریں۔اگر نگران نہ ہوں توبعض شہری تو سر پر ناچیں گے۔پھر سمیت اپنی گاڑی او رسواری کے ماحول کی کشادگی کو تنگی میں بدل دیں گے۔ان میں فی الحال ٹریفک کااتناشعور نہیں۔ ان میں تاحال ذمہ داری کا اتنااحساس نہیں۔ یہ کہ اچھے بچوں کی طرح بات مانیں۔جب ٹریفک سارجنٹ نہ ہو تو یہ سرخ بتی کے روشن ہوجانے پر رک جائیں۔ شہر کی اس قسم کی اودھم مچا دینے والی ٹریفک میں سے ہو کر گزرنا تو جیسے انگاروں پر رقص کرنا ہے۔ہارن بجے گا یا ٹریفک کہیں الجھن کا شکار ہوگی تو اس کا براہِ راست آدمی کے دل دماغ پر بھی ہوگا۔ اس کا بلڈ پریشر ہائی ہو سکتا ہے۔الجھن میں سینے میں دکھن ہو سکتی ہے۔ایک سیدھا سادا آدمی تو اس ماحول اس معاشرت میں جیون گزارنے سے رہا۔وہ آخر کہاں بھاگ کر جائے۔ ویرانوں کی طرف نکل جائے تو بھی امکان میں نہیں او رشہر میں رہے تو بھی دھیان میں نہیں۔