کا لم میں خطوط کی گنجا ئش بہت کم ہو تی ہے تا ہم ٹیکساس امریکہ سے آئے ہوئے خطوط اس لا ئق ہیں کہ کا لم میں جگہ دیکر قارئین تک پہنچا نے جائیں خط لکھنے والا پشاور کا مشہور معا لج ہے 1970ءکے عشرے میں پشاور میں ڈاکٹر الف خان کی شہرت تھی شہر کے سب سے پرانے اور بڑے ہسپتال میں میڈیکل اے وارڈ کا پرو فیسر تھا ڈاکٹر سید امجد حسین کی طرح پشاور سے دور رہ کر بھی پشاور کے اخبارات کو پڑ ھتے ہیں روز نامہ آج کی خبروں ، تصویروں اور ادارتی صفحہ کے کالموں پر رائے دیتے ہیں ایک خط میں جر من چانسلر انجیلا مار کل کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ 40سال سیا ست میں رہنے اور 15سال یورپ کی سب سے بری معیشت والے ملک کا چانسلر رہنے کے بعد انہوں نے خا نہ نشینی کا فیصلہ کیا اس حال میں ایوان اقتدار سے رخصت ہوئیں کہ ان کا کوئی رشتہ دار پارٹی اور حکومت میں کسی منصب پر فائز نہیں ہے دوسرا خط ایک سما جی رویے پر طنز ہے خط میں اپنے تمام دوستوں ‘ عزیزوں اور بہی خوا ہوں سے کہتا ہے کہ مجھے ” پروفیسر “ مت کہیں ، پرو فیسر مت لکھیں پرو فیسر کوئی سند یا ڈگری نہیں یہ کوئی لقب ، کوئی نام یا خطاب نہیں یہ ایک عہدہ ہے جو ریٹا ئر منٹ کے دن ختم ہو جا تا ہے ریٹا ئر ہونے کے بعد آدمی اپنے عہدے پر نہیں رہتا اس کو عہدے کا نام لیکر پکار نا یا اس کے نا م کے ساتھ عہدے کو خواہ محواہ چپکا نا درست نہیں‘ ہمارے ہاں ہسپتال کا وارڈ بوائے بھی ڈاکٹر کہلا تا ہے ، کا لج میں ایڈ ہا ک بھرتی ہونے والے لیکچر ر کو پہلے ہی دن پرو فیسر کہا جا تا ہے اور تو اور مغل باد شاہوں کے زما نے میں اگر کوئی کسی ریاست کا وزیر یا قاضی تھا تو اس کی اٹھا ئیسویں نسل بھی اپنے نا م سے پہلے وزیر یا قاضی لگا نا اپنے لئے باعث فخر سمجھتی ہے ‘ ڈاکٹر الف خا ن کا تیسرا خط پہلے دو خطوں کی طرح فکر انگیز ہے روز نا مہ آج میں کورونا کے حوا لے سے شائع ہونے والے کا لم پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کورونا ایس اوپیز یعنی معیا ری عملی تدابیر غریبوں کے سامنے تو ہیں امیروں کے سامنے نہیں ہیں سیا ستدانوں‘ حکمرانوں‘ وزیروں‘ مشیروں اور بڑے آفیسروں کی تصاویر ہر روز اخبارات کی زینت بنتی ہیں ان تصویروں میں خال خال کسی کے چہرے پر ما سک ہوتا ہے خال خال کسی نے سما جی تعلق میں 6فٹ کے فاصلے پر عمل کیا ہوا ہوتا ہے اگر ملک کے مقتدر طبقے کا یہ حال ہو گا اور ایسی تصاویر پرہر روز پرنٹ میڈیا کے ساتھ ساتھ الیکٹر نک میڈیا اور سوشل میڈیا پر آئینگی تو عوام پر معیاری عملی تدا بیر کا کیا اثر ہو گا ؟ ڈاکٹر الف خا ن نے 7ہزار کلو میٹر دور سات سمندر پا ر بیٹھ کر پشاور شہر اور پشاور کے اخبارات کو جس طرح وقعت دی ہے یہ ہمارے لئے باعث مسرت ہے ڈاکٹر صاحب نے انجیلا مارکل کے حوالے سے جس سیا سی کلچر کی نشا ن دہی کی ہے اس کلچر کو اپنا نے کی دعا ہم جاری رکھیںگے جن سما جی رویوں کی طرف آ پ نے اشارہ کیا ہے یہ رویے ہماری زند گی میں بھی آئینگے شرط یہ کہ ہم خود کو بدلنے کا ارادہ کریں تبدیلی کا سفر ارادہ سے شروع ہوتا ہے ۔