کورونا ویکسین کی وافر مقدار میں دستیابی ممکن بنانے کےلئے حکومت نے نجی کمپنیوں کو ویکسین درآمد کرنے کی اجازت دیدی ہے تاہم ویکسین کی درآمد اور فراہمی کے حسب طلب معمول پر آنے سے متعلق صورتحال ابھی واضح نہیں ہے اور ایسا صرف پاکستان ہی کی حد تک محدود نہیں بلکہ دنیا کے کئی ممالک میں کورونا جرثومے کے خلاف مو¿ثر ویکسین زندگی اور موت کا مسئلہ ہے کیونکہ اس میں پیچیدہ سائنسی عمل کے علاوہ ملٹی نیشنل کارپورپیشنز کے کاروباری مفادات‘ کئی حکومتوں کے متضاد وعدے اور افسرشاہی کے طریقے و قواعد آڑے آ رہے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر خاص و عام کےلئے کورونا ویکسین کب سے اور کیسے دستیاب ہوگی‘ اِس بات کا کسی کے پاس کوئی سیدھا جواب نہیں ہے۔ امریکہ کے معروف جریدے اکانومسٹ نے اس حوالے سے جامع تحقیق کی ہے جس میں مختلف ممالک میں لوگوں تک ویکسین پہنچانے کے طریقے‘ ویکسین کی پیداواری صلاحیت اور صحت عامہ کی سہولیات کا ڈھانچہ (ہیلتھ کیئر انفراسٹرکچر) کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اسی طرح کسی ملک کی آبادی کے حجم کو بھی مدنظر رکھا گیا کہ وہ اُس کے تمام لوگوں تک کورونا ویکسین ممکنہ طور پر کب تک پہنچ پائے گی۔ خاص بات یہ ہے کہ اس مطالعے میں امیر و غریب ممالک کے فرق کو بھی ملحوظ رکھا گیا ہے۔عالمی تحقیق سے معلوم ہے کہ برطانیہ اور امریکہ صرف 2 ایسے ممالک ہیں جہاں کورونا ویکسین کو صیحح معنوں تک عوام تک پہنچایا جا رہا ہے کیونکہ ان ممالک کی حکومتوں نے ویکسین کی تیاری میں سرمایہ کاری کی تھی اور یہی وجہ ہے کہ وہ ویکسین حاصل کرنے کےلئے صف اول میں شامل ہیں۔ کینیڈا اور یورپی یونین میں شامل ممالک برطانیہ اور امریکہ سے پیچھے ہیں۔ کئی کم آمدنی والے ممالک نے ابھی تک ویکسین لگانے کا عمل شروع ہی نہیں کیا ہے مگر کچھ ممالک نے ویکسین سے متعلق حیران کن ترجیحات ظاہر کی ہیں۔ گذشتہ سال کے اختتام پر اس وقت کینیڈا کو تنقید کا سامنا کرنا پڑا جب اس نے اپنی آبادی کے حجم سے پانچ گنا زیادہ ویکسین کےلئے آرڈر بک کرایا تاہم یہ لگ رہا ہے کہ کینیڈا نے اپنے لئے ویکسین کی ترجیحی فراہمی کا خیال نہیں رکھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کینیڈا نے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے ویکسین کی برآمد پر ممکنہ پابندی کے خدشے سے یورپی فیکٹریوں میں سرمایہ کاری کی ہے تاہم یہ کینیڈا کےلئے بہتر فیصلہ ثابت نہیں ہوا۔ ابھی یورپی ممالک کی فیکٹریاں ویکسین کی سپلائی پوری کرنے کی جدوجہد کر رہی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ حال ہی میں امریکہ کے بجائے یورپی یونین میں شامل ممالک اس ویکسین کی برآمد پر پابندی عائد کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں۔ اِس خیال کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ جب تک یورپی ممالک میں رہنے والوں کی بڑی تعداد تک کورونا ویکسین نہیں پہنچ جاتی اُس وقت کینیڈا کو ویکسین ملنا ممکن نہیں ہو گا تاہم کچھ ایسے ممالک بھی ہیں جو اُمیدوں سے بڑھ کر اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور ان میں سربیا شامل ہے جہاں عوام تک ویکسین کی فراہمی ہو رہی ہے اور سربین عوام کورونا ویکسین حاصل کرنے والے سرفہرست آٹھ ممالک میں شامل جبکہ کئی یورپی ممالک سے آگے ہیں اگرچہ سربیا کی عوام تک ویکسین کی فراہمی کی کامیابی کسی حد متاثر بھی ہوئی مگر سربیا ویکسین ڈپلومیسی سے فائدہ اٹھا رہا ہے کیونکہ چین اور روس کے درمیان مشرقی یورپ میں اپنا اثرو رسوخ برقرار رکھنے کی ایک لڑائی جاری ہے۔ سربیا ان چند علاقوں میں سے ایک ہے جہاں روس کی تیار کردہ ویکسین سپونتک فائیو اور چین کی ویکسین سائنو فارم دستیاب ہیں اگرچہ کاغذوں میں اب سربیا کی عوام کو یہ آپشن دیا جاتا ہے کہ وہ فائزر‘ سپونتک یا سائنو فارم میں سے کسی ایک ویکسین کا انتخاب کریں تاہم حقیقت میں وہاں زیادہ تر لوگوں کو سائنو فارم ہی لگائی جاتی ہے۔ اِس تعاون کی وجہ سے چین کا سربیا میں اثر و رسوخ کافی عرصے تک برقرار رہنے کا امکان ہے۔ توجہ طلب ہے کہ کورونا وبا کا نہ صرف مالی فائدہ اُٹھایا جا رہا ہے بلکہ دنیا میں ایک نئی قسم کی ویکسین سفارتکاری بھی متعارف ہوئی ہے اور اب ممالک کے درمیان تعلقات کو اِس نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے کہ عالمی طاقتیں (امریکہ‘ برطانیہ اور چین) اپنے اتحادیوں کو کتنی مقدار میں کورونا ویکسین فراہم کرتی ہیں۔ حیرت انگیز امر ہے کہ جس دنیا کو عالمی وبا کے خلاف متحد ہو کر مقابلہ کرنے کی ضرورت تھی وہ کورونا کے خلاف جنگ محاذ آرائی اور سفارتکاری کے ذریعے جیتنا چاہتی ہے اور اِس سے بڑی کوئی دوسری بھول اور غلطی نہیں ہو سکتی۔