مسئلہ اور اس کا حل۔۔۔

میں ان کی حمایت تو نہیں کرتا مگر جہاں تک دیکھا ہے گلیوں میں پھرتے آوارہ کتے انسانوں کو اس لئے کاٹتے ہیں کہ خود آدمی ان کو چھیڑتے ہیں۔یہ پتھر مارنے والوں کو آئندہ کےلئے پہچان لیتے ہیں۔ پھر پیار کرنے والوں کی خوشبو کو بھی جان لیتے ہیں۔ان بیچاروں کو تو عام لوگ دیکھتے ہی بغیر کسی وجہ کے ہاتھ نیچا کر کے پتھر اٹھاتے او رمارتے ہیں ۔خاص طور پر بچے تو کتوں کو الٹا خود چھیڑتے ہیں ۔ اس لئے کتوں کے کاٹنے کے واقعات میں زیادہ تر تعداد بچوں کی ہے ۔بچے ان کوچٹکی بجا کر منہ سے پچکار کرساتھ ساتھ لئے گھومتے ہیں ۔ پھر انھیں قابو میں کر کے جمعہ کے دن پشاور کی مارکیٹوں میںبیچ کر پیسے کھرے کر لیتے ہیں۔ظاہر ہے کہ ان حیوانوں کو تو کاٹنے سے روکانہیں جا سکتا مگر اتنا ہے کہ خود بچوں اور بڑوں کو سمجھایا جا سکتا ہے کہ ان کو فضول میں پتھر نہ ماریں۔ بلکہ یہ آواہ کتے عام لوگوں کا من پسند شکار ہیں۔ جو بھی انھیں دیکھتا ہے اس کا ہاتھ پتھر کی طرف جھکتا ہے ۔اب ایسا بھی نہیں کہ کتوں کو نسل کو ختم ہی کر دیا جائے ۔ٹھہر ٹھہر کر ختم کریں تو بھی یہ مخلوق ختم تو کیا کم ہونے والی بھی نہیں۔یہ ڈینگی جیسے مچھر کو ختم نہیں کرسکے کتوں کا خاتمہ کیا کریں گے۔چوہوں کے پیچھے پڑے تھے مگر کیاہوا خود آرام سے بیٹھ گئے اور چوہے ہیں کہ اسی طرح گلی کوچوں میں دندناتے گھوم رہے ہیں ۔کبھی ایک گھر میں سے نکل کر سامنے والے کی ڈیوڑھی میں گھس رہے ہیں تو کبھی کسی اور گھر میں۔مکھی کاکروچ چھپکلیاں چیونٹیاں یہ مخلوقات تو کسی طرح کم نہیں ہوئیں بلکہ پہلے سے زیادہ ہو چکی ہیں۔جہاں کتامار مہم شروع تھی وہاں ان انسانوں کے جلوس بھی نکلتے ہیں جو کتوں کو مارنے کے خلاف ہیں۔ ان کاکہناجیسے ہم انسانوں میں محسوس کرنا ہے اسی طرح یہ مخلوق بھی خوشی اور دکھ کو محسوس کرتی ہے۔اگر ان کاخاتمہ کرنا ہے تو اس کےلئے آسان سا طریقہ اختیار کیا جائے ۔ کیونکہ کائنات کانظام چلنے میں اس مخلوق کا کردار بھی ہے ۔انھیں اس طرح ظالمانہ طریقے سے مار ڈالنا درست نہیں۔بلکہ میں کہوں جانوروں پر ظلم کرنے کی اپنی دفعہ ہے اور سزائیں ہیں۔پھر آج سے تو نہیں انگریزو ںکے زمانے 1890ءسے ہیں جن میں ترمیم کر کے جرمانہ اور سزا زیادہ کرنے کا سوچا جا رہا ہے ۔کتوں کے کاٹنے کو روکنے کےلئے مختلف طریقے اختیار کئے گئے ہیں آج کل اس پر سوچ بچا رہے کہ انسانوں کے بجائے کتوں کو ویکسین لگائی جائے تاکہ یہ کسی کو کاٹیں تو اس کی جان کو خطرہ نہ ہو۔وجہ یہ کہ ہسپتال میں تو کتوں کے کاٹنے کی ویکسین دستیاب نہیں ہوتی ۔کبھی کہتے ہیں کہ کتوں کے کاٹنے کے واقعات بڑھ گئے ہیں ۔ایسی کوئی بات نہیں ۔دراصل آج ذرا سی ٹینشن ہو تو ٹی وی پر آجاتی ہے۔ پہلے ا س قسم کے واقعات رپورٹ نہیں ہوتے تھے ۔کسی کو کتے نے کاٹا تو وہ معمولی زخم سمجھ کر ہسپتال نہیں جاتا تھا ۔لیکن اب چونکہ زیادہ تر شہری کتو ں کے کاٹنے پر ہسپتا ل کا رخ کرتے ہیں اس لئے سرکاری کاغذوں میں اندراج ہونے کے بعد شماریات والے ان کا ڈیٹابنا لیتے ہیں کہ پچھلے سال تو شہریوں کو کتوں نے زیادہ کاٹا ۔کتوں کے کاٹنے کا مسئلہ جو ٹی وی پر دکھایا گیا وہ شروع سندھ سے ہو اور پھر پنجاب اور پھر کے پی میں اس کی گونج سنائی دی۔ پشاور میں اہل کارفارغ ہوں تو کبھی کبھی جال لے کرنکلتے ہیں اور کتوں کو گھیر گھار کر لے جاتے ہیں۔مگر مہینہ بھرنہیں گذرتاکہ پھر سے کتوں کی تعداد میں اضافہ ہو جاتا ہے ۔شہرکی پکی والی گلیوں میں تو ان حیوانوں کی تعداد بہت کم ہے ۔مگر گا¶ں او رپرگنوں میں جہاں مٹیاں اور کھلی جگہیں زیادہ ہیں وہاں اس مخلوق کی بہتات ہے ۔مگر اتناہے کہ اس مخلوق کو انسان کے ساتھ پیار ہے اور انسان کی وفادار ہے۔کبوتر کو گھر کی چھت کے ساتھ محبت ہوتی ہے ۔ آپ اگر مکان تبدیل بھی کر لیں تو کبوتر کو آپ سے کوئی واسطہ نہیں ہوگا۔ وہ چھت ہی پر رہیں گے ۔مگر کتا تو انسان کے ساتھ پورے شہر میں گھومے گا کیونکہ وہ انسان سے محبت کرتا ہے ۔کوئی بھی پرندہ کبھی وفادار نہیں ہوتا کوئی جانور چوپایہ انسان کے ساتھ وفاداری کا مظاہر ہ نہیں کرتا ۔مگر جانوروں میں واحد ایک کتا ہے جو آدمی سے وفاکرتا ہے ۔کتا انسانوں کے ساتھ رہنا چاہتا ہے ۔