عالمی ادارہ صحت کی جانب سے ایک بُری اور ایک اچھی خبر میں بتایا گیا ہے کہ جنوبی افریقہ اور برازیل سے آنے والی ابتدائی معلومات کے مطابق کورونا وبا ءسے متاثر اور بعدازاں صحت یاب ہونے والوں میں جرثومے پھر سے جاگ اُٹھے ہیں کیونکہ اُنہوں نے خاطرخواہ احتیاط کا مظاہرہ نہیں کیا۔ تشویشناک اَمر یہ بھی ہے کہ ایسے افراد کہ جن پر کورونا وبا ءکا دوبارہ حملہ ہوا ہے اُن پر عمومی طریقہ علاج اور ادویات کارگر ثابت نہیں ہو رہیں جبکہ اچھی خبر یہ ہے کہ کورونا وبا ءسے بچنے کے لئے ویکسین سے زیادہ چہرہ ڈھانپ کر رکھنا زیادہ مفید رہا ہے اور وہ لوگ کہ جنہوں نے ماسک پہننے کی عادت کو اپنا رکھا ہے‘ اُن کے کورونا سے متاثر ہونے کے بعد اور اِس مرض سے متاثر ہونے کے امکانات حیرت انگیز طور پر کم ہیں۔عالمی ادارہ صحت کے شعبہ سائنسی تحقیق کی سربراہ ڈاکٹر سومیا وامی ناتھن نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے ہوئی ایک رسمی بات چیت میں کہا کہ ”اچھی خبر یہ بھی ہے کہ کورونا وائرس کی روک تھام کے لئے تیار ہونے والی ویکسینز سے چاہے مکمل تحفظ نہ بھی ملے مگر بیماری کی شدت میں کمی آسکتی ہے جبکہ جنوبی افریقہ اور برازیل میں اب تک ہونے والے ویکسین ٹرائلز میں سنگین بیماری‘ ہسپتال میں داخلے اور موت کے خلاف مکمل تحفظ دریافت ہوا ہے اور کسی بھی ٹرائل میں ایسا ایک کیس بھی دریافت نہیں ہوا۔“ عالمی ادارے کے مطابق ویکسی نیشن سے کورونا وائرس کی نئی اقسام کے پھیلاو¿ میں بھی ممکنہ طور پر کمی آسکتی ہے۔ ایسی اطلاعات سامنے آئی ہیں کہ اگر ویکسین لگنے کے باوجود بھی کورونا سے متاثر ہوئے ہیں لیکن اگر ماسک پہنا جائے تو صحت مند اور متاثرہ دونوں صورتوں میں وائرس کی منتقلی یا پھیلاو¿ کا امکان بڑی حد تک کم ہو جاتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت اور سائنسدان اِس بات کی طرف توجہ دلا رہے ہیں کہ کورونا وبا ءسے بچنے ہی میں سمجھداری ہے اور اِس کے خلاف ویکسین پر بھروسہ کرنے سے بہتر ہے کہ چہرہ ڈھانپ کر رکھا جائے اور ہمہ وقت ماسک کا استعمال کیا جائے۔ سائنسدانوں نے تحقیق سے دریافت کیا ہے کہ دسمبر 2019ءسے کورونا متاثرین کو دوبارہ بیمار ہونے سے تحفظ ملنے کی واحد صورت ماسک ہے مگر اس حوالے سے بھی کام کیا جارہا ہے کہ کورونا کی پرانی قسم سے متاثر افراد کو نئی اور زیادہ متعدی اقسام کے خلاف کس حد تک تحفظ دیا جائے۔ ویکسی نیشن کے عمل سے گزرنے والے افراد کو احتیاطی تدابیر جیسے فیس ماسک پہننا‘ اپنے دونوں ہاتھوں کی صفائی اور سماجی دوری کو بہرصورت برقرار رکھنا چاہئے تاکہ وائرس کے پھیلاو¿ کو کنٹرول کیا جاسکے اور دنیا کے لئے یہی کامیاب حکمت عملی ہو گی کہ کورونا وائرس کا پھیلاو¿ روکا جائے جس کی نئی قسم مستقل خطرہ بنی ہوئی ہے۔ عالمی ادارہ صحت نے خبردار کیا ہے کہ دنیا بھر میں کورونا ویکسین کی دستیابی (آئندہ چار سے پانچ سال) تک عوامی صحت اور سماجی اقدامات کو پر عملدرآمد جاری رکھنا ہوگا تاکہ وائرس کے پھیلاو¿ کی روک تھام ممکن ہو سکے۔ کورونا وبا ءکے خلاف مختلف ممالک کی جانب سے ویکسینز منظرعام پر آنے کے مقابلے اِس وباءکا پھیلاو¿ زیادہ تیزی سے جاری ہے اور یہی بات اُن سبھی کوششوں کی ناکامی کا باعث بن رہی ہیں جو کورونا وبا ءسے نمٹنے کے لئے اختیار کی جا رہی ہیں۔پاکستان اور بالخصوص خیبرپختونخوا کے لئے یہ بنیادی نکتہ سمجھنا اور اِس اصول کی صداقت پر یقین کرنے کی ضرورت ہے کہ فیس ماسک پہننے سے نئے کورونا وائرس سے تحفظ ملتا ہے اور یہ انکشاف اپنی جگہ اہم (لائق توجہ) ہے کہ ماسک پہننے کا ایک اور فائدہ بھی ہے کہ فیس ماسک پہننے سے جو نمی پیدا ہوتی ہے وہ نظام تنفس کے امراض جیسے کورونا وبا ءسے لڑنے میں مدد فراہم کرسکتی ہے۔ اِس بات کی تصدیق اگرچہ عالمی ادارہ صحت نے نہیں کی لیکن امریکہ میں ماسک کے استعمال پر ہوئی طبی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ فضائی آلودگیوں سے تحفظ کے علاوہ نظام تنفس کی کئی بیماریوں کا علاج ماسک کے استعمال سے ممکن ہوا ہے۔ امریکہ کی ’نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ‘ کے ذیلی شعبے ”نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ڈائیبیٹس اینڈ ڈائجسٹو اینڈ کڈنی ڈیزیز“ کی مذکورہ تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ فیس ماسک پہننے کے بعد جب سانس خارج کی جاتی ہے تو اِس سے ہوا میں نمی بڑھ جاتی ہے اور زیادہ نمی والی ہوا کو جب سانس کے ذریعے اندر کھینچا جاتا ہے تو کورونا سے متاثر ہونے پر بھی لوگوں میں بیماری کی شدت زیادہ نہیں ہوتی۔ تحقیق میں بتایا گیا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ سانس کی نالی میں ہائیڈریشن مدافعتی نظام کے لئے فائدہ مند ہوتی ہے اور فیس ماسک سے جسم کے اندر جانے والی ہوا میں نمی بڑھنے کے نتیجے میں مرض کی شدت کم ہوتی ہے۔عمومی طور پر دیکھا گیا ہے کہ لوگ ماسک کو صرف منہ یا تھوڑی کے اوپر پہنتے ہیں جبکہ ناک مکمل یا اِس کے اطراف کھلے رہتے ہیں۔ ماسک رسمی تقاضا نہیں ۔