گیارہ اور گیارہ کھلاڑی تو میدان میں اُترے ہوئے ہیںمگر دونوں ٹیموں کے بائیس کھلاڑیوں کے ساتھ ہر دو ٹیموں کا ایک کھلاڑی با¶نڈری لائن کے باہر عوام سے بہت دور اور میدان کے بہت قریب بیٹھا ہوا ہے ۔اس کے دل میں خواہش چٹکیاں کاٹتی ہے کہ وہ بھی ان گیارہ کھلاڑیوں کے ساتھ سرمیدان مقابلہ میں مصروف ہو ۔میں اصل میں ہاکی میچ کی بات کر رہاہوںیا فٹ بال بھی مراد لے سکتے ہیں یا پھر اگر کرکٹ ہی مراد ہے تو پھر جو ٹیم فیلڈ میں ہوتی ہے اس کا بارہواں کھلاڑی باہر تیار بیٹھاہوتا ہے کہ اگر کسی کھلاڑی کو چوٹ پہنچی یا کسی اور طرح اس کو مقابلے کے عین درمیان میں کھیل سے نکل جانا ہوا تو میں اس کی جگہ میدان میں کود جا¶ں گا۔ پھرہمارے ہاں کھیل کا نام آتے ہی کرکٹ ہی ذہن میں آتی ہے کیونکہ ہاکی کوتو لوگو ں نے بھلا دیا کیونکہ ا س کی قدر و قیمت کرکٹ کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہے ۔فٹ بال کو چھوڑیں کیونکہ اس کو تو کسی نے ایسی زوردار لات لگائی کہ جانے وہ کہا ں جاکرگرااو ر واپس لایا ہی نہ جا سکا ۔ ہاکیاں تو ہم سے چھین لی گئی ہیں۔ ایک زمانے میں پاکستان کے پاس پانچ عالمی مقابلوں کے کپ موجود تھے۔ جونیئر عالمی کپ ، ایشیا ءکپ، عالمی ہاکی کپ، ایسنڈا ہاکی کپ اور اولمپک ہاکی کپ۔اب تو کرکٹ کی دھوم ہے ۔ بھوم بھوم ہے ۔شاہین ہیں۔کرکٹ کی کشش کیوں ہے ۔اس لئے کہ اس میں سٹے بازی کا عنصر ہے ۔ ہر طرح سے روکو مگر جب کوئی کرکٹ کپ کھیلا جا رہاہو تودور دراز کے ملکوں میں بھی گھر گھر جوا ہو رہاہوتا ہے۔بارہواں کھلاڑی شاید کسی اور مقصد کے تحت کرکٹ گرا¶نڈ میں اترنا چاہتا ہو۔”بارہواں کھلاڑ ی“ اصطلاح بن چکی ہے ۔ اول اول افتخار عارف نے دہائیوں پہلے ایک نظم لکھی تھی۔ جس کا نام تھا ”بارہواں کھلاڑی“ ۔ ظاہر ہے کہ انھوں نے ہاکی کے بارہویں کھلاڑی کا ذکر کیا ۔ بات کھیل کی تھی مگر اوپر اوپر تھی ۔اندرون تو انھوںنے ا س نظم میں معاشرے کے ایک خاص سوچ رکھنے والے آدمی کے بارے میں مصنوعی میدان سجایا تھا۔ اب تو یہ ٹرم سیاست میں بھی در آئی ہے ۔ ہر آدمی بارہواں کھلاڑی بناہوا ہے ۔ بارہواں کھلاڑی چاہتا ہے کہ ان کو ہٹا کر خود ہر گیارہویں کھلاڑی کے بدلے میں پہلا کھلاڑی بن کر کھیلے ۔اب کے تو بارہویں کھلاڑی وہ بھی ہیں جو خودکبھی ٹیم کے کپتان ہوا کرتے تھے۔وہ اگر موجودہ میدان میں کھیل رہے ہوتے تو شاید کچھ نہ کر پاتے ۔مگر باہر بیٹھ کر وہ سوچ میں ہیں کہ ٹیم کاکپتان اپنی ٹیم سمیت صحیح طریقے کے ساتھ کھیل نہیں پا رہا۔اگر اس کی جگہ میں ہوتا تو ایسا کرتا ویسا کرتا ۔” کہتے تو ہو یوں کہتے یوں کہتے گر وہ آتا ۔ سب کہنے کی باتیں ہیں کچھ بھی نہ کہا جاتا“۔یہ سب شور مچانے کی باتیں ہیںکیونکہ گرا¶نڈ کی پچ ایسی ہے کہ یہاں اس پر کھیل کھیلتے ہوئے اپنے جوہر دکھلاناازحد مشکل کام ہے ۔پھر عالمی ٹورنامنٹ ہے چیمپئن ٹرافی ہے ۔دنیا کی زبردست ٹیمیں شامل ہیں ۔ان سے بازی لے جانا گرا ں ہے ۔ بلکہ کوہِ گراں ہے ۔ ” جو رُکے تو کوہِ گراں تھے ہم جو چلے تو جاں سے گزر گئے۔ رہِ یار ہم نے قدم قدم تجھے یادگار بنا دیا“۔یہ رہِ یار ہے یہ پھولوں کی سیج نہیں۔ کانٹوں کا راستہ ہے ۔چلنا دشوار ہے ۔ہم دیکھیں گے کہ” کون اس راہ گ©زرتا ہے“ہم دیکھیں گے کہ ستم کے کوہِ گراں کب روئی کی طرح اُڑ جائیں گے۔کب بادلوں پر بجلی کے سرخ انگارے برساتے ہوئے کوڑے بجیں گے۔مگر بارہویں کھلاڑی کو کون سمجھائے کہ کھیل کے اندر جانے کی کوشش مت کرتا ۔