امریکی سینٹ نے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو عوام کو بغاوت پر اکسانے کے الزامات کے تحت قائم مواخذے کے مقدمے میں بری کردیا ہے۔ ٹرمپ کو قصوروار ٹھہرانے کے لئے دوتہائی اکثریت یعنی 67 ووٹ درکار تھے لیکن 57 سینیٹرز (پچاس ڈیموکریٹ اور سات ریپبلکن ارکان) نے ٹرمپ کو جرم کا مرتکب جبکہ 43 ریپبلکن سینیٹرز نے انہیں بے گناہ قرار دے دیا۔اگرچہ یہ مجموعی طور پر امریکی تاریخ کا چوتھا مقدمہ مواخذہ تھا۔ ٹرمپ سے پہلے صرف دو صدور یعنی 1688 ءمیں اینڈریو جانسن اور 1998 ءمیں بل کلنٹن کا مواخذہ ہوا تھا لیکن ان دونوں کو بھی بالآخر بری کردیا گیا‘تاہم ٹرمپ کا یہ پہلا مقدمہ تھا جس میں تمام حکومتی اور کئی اپوزیشن پارٹی ارکان نے صدر کے خلاف ووٹ دیا‘ٹرمپ واحد صدر ہیں جو پچھلے سال فروری کی طرح دوسری بار بھی سینٹ میں مواخذے کے مقدمے میں بچ گئے ہیں۔اگرچہ ٹرمپ سینٹ میں بری ہوگئے اور نااہل نہیں ہوسکے۔ اس طرح اب وہ 2024 ءکے صدارتی انتخاب میں حصہ لینے کے اہل ہیں لیکن ٹرمپ اور ان کے ساتھیوں کے خلاف کئی قسم کی سیاسی اور مالیاتی امور پر فوجداری اور کانگریسی تحقیقات جاری رہیں گی۔مواخذے کی کاروائی کے دوران مواخذے کے منتظمین نے 6 جنوری کے حملے سے پہلے اور اس دن صدر کے سوشل میڈیا پوسٹوں کی سکرین شاٹس، سینکڑوںصفحات کی دستاویزات اور کئی گھنٹوں کی ویڈیو اور آڈیو شواہد استعمال کرتے ہوئے سابق صدر کو جرم کا مرتکب ثابت کرنے کی کوشش کی لیکن 43 ریپبلکن ارکان نے اپنی پارٹی وابستگی اور سیاسی مفاد کی خاطر امریکی آئین اور جمہوریت پر ٹرمپ کی خوشنودی کو ترجیح دے دی۔29 جنوری کے ”چراغِ راہ“ہم نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ ”اگر سابق امریکی صدر ٹرمپ کو مواخذے کے مقدمہ میں سزا دینے کا انحصار ریپبلکن ارکانِ کانگریس کی حمایت پر ہے تو بظاہر انہوں نے دکھادیا ہے کہ ان کے لئے آئین، جمہوریت اور روایات کا پاس رکھنے کے بجائے اپنی پارٹی کے صدر ٹرمپ کی خوشنودی اہم تر چیز ہے۔“اور وہی ہوگیا۔ڈیموکریٹس اور مواخذے کے نو منتظمین کا بنیادی مقدمہ یہ تھا کہ ٹرمپ مہینوں تک اپنے حامیوں سے جھوٹ بولتے رہے کہ وہ ا صل میں جیت گئے تھے مگر انہیں دھاندلی سے ہرایا گیا، اب اس جعلی جیت کی تصدیق کو روکنا ضروری ہے اور اس کے لئے جنگ کرنی ہوگی ورنہ آپ کو ملک (اور مجھے حکومت) نہیں ملے گا۔ چھ جنوری کا واقعہ ان کی بے بنیاد الزام تراشی اور انتخابات کے نتائج تبدیل کرنے کی سازشوں کا تتمہ تھا۔ انہوں نے عوام کو ہنگامہ آرائی اور بغاوت پر اکسایا۔ کانگریس کو فرائض ادا کرنے سے روکا، نائب صدر پنس، بہت سے سینیٹرز اور پولیس کی زندگی کو خطرے میں ڈالا۔ مظاہرین کو کنٹرول کرنے اور سینیٹرز کی حفاظت کے لئے کچھ نہیں کیا۔ اس لئے ٹرمپ کو سزا ملنی چاہئے اور ان کو نااہل کرکے سیاست میں ان کی شمولیت پر پابندی لگانی چاہئے تاہم اکثر ریپبلکن سینیٹرز نے جس طرح ٹرمپ کے خلاف ہاﺅس منتظمین کے دلائل کے دوران جس طرح عدم دلچسپی دکھائی اس کے بعد بظاہر منتظمین ریپبلکنز سے مایوس ہوکر عوام اور تاریخ سے مخاطب تھے۔ٹرمپ کے وکلاءکا بیانیہ یہ تھا کہ ڈیموکریٹس اپنے سیاسی مخالف کو نااہل کرنا چاہتے تھے۔ ٹرمپ سابق صدر ہیں اس لئے ان پر مقدمہ غیر آئینی ہے۔ بے شک بغاوت ہوئی لیکن باغی خود آئے ٹرمپ نے انہیں نہیں اکسایا اس لئے وہ بے گناہ ہیں۔ واضح رہے اکثر ریپبلکنز نے ٹرمپ کو فنی بنیاد پر بری کیا۔ ریپبلکن سینیٹر مچ میکونل، جس نے ٹرمپ کی بریت کے لئے ووٹ دیا، نے ٹرمپ کو فرائض سے غفلت کا مرتکب قرار دیا اور کہا کوئی شک نہیں ٹرمپ گناہ گار ہیں مگر سینٹ کسی سابق صدر کا مواخذہ نہیں کرسکتا۔ یہ بڑی مضحکہ خیز دلیل تھی۔ ایک تو یہ کہ اسی مچ میکونل نے تب سینٹ اکثریتی رہنما کی حیثیت میں بیس جنوری سے پہلے ٹرمپ کی صدارت کے دوران اس کا مواخذہ شروع کرنے میں روڑے اٹکائے تھے۔ پھر ٹرمپ بے شک سابق صدر تھے لیکن ان کا مواخذہ ایسی باتوں اور کاموں کی بنیاد پر کیا جارہا تھا جو انہوں نے صدارتی میعاد میں کئے تھے۔ٹرمپ کو سزا نہیں ہوئی لیکن 6 جنوری اور اس کے بعد اس کے مواخذے کی کاروائی کی وجہ سے ٹرمپ تاریخ میں ایک ایسے صدر کے طور پر یاد رکھے جائیں گے جنہوں نے اپنی قوم، آئین، نظامِ حکومت اور اپنے نائب صدر کو خطرے سے دوچار کیا۔صدر ٹرمپ نے ابھی اپنی کسی عمل پر ندامت کا اظہار کیا اور نہ معافی مانگی ہے۔ بریت کے بعد انہوں نے مواخذے کے مقدمے کی مذمت کی اور کہا” کہ بریت کا فیصلہ امریکہ کو دوبارہ عظیم بنانے کا تاریخی اور خوبصورت لمحہ ہے ‘فسوس کہ صدر ٹرمپ کو سرکاری اہلکاروں پر دباو¿ ڈالنے، صدارتی انتخاب کے نتائج تبدیل کرنےکی سازشوں، اپنے حامیوں کو کھلم کھلا تشدد پر اکسانے اور کیپٹل ہل پر حملے میں ان کے کردار پر سزا نہ ہوسکی۔