کتاب کی آپ بیتی 

 کتابیں پڑھنا تو اب ترک ہو چکا ہے۔چھوڑ دیا گیا ہے۔لائبریریوں میں کتابیں پڑی گل سڑ رہی ہیں۔کتب خانے کے ہال انتظار میں ہیں کہ کوئی بھولے بھٹکے آ جائے۔یہ لائبریری مہک مہک جائے۔ مگر کہاں۔اب تو ”اور سے اور ہوئے درد کے عنواں جاناں“۔اب تو قدریں بدلنے لگی ہیں۔اب کتابوں کے بجائے اور چیزوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔ہر چند کہ اس دور میں بھی کتاب پڑھنے والوں کے کال میں بھی قارئین ہیں تو سہی۔ مگر وہ تو نہ ہونے کے برابر ہیں۔ زمانہ روز بروز مصروف ہوتا جا رہاہے۔لوگوں کی پسند نا پسند بدل رہی ہے۔ملک میں بد امنی ہے۔کورونا کی ستم ساز درد انگیزی ہے۔معیشت کو صدمہ پہ ایک اور صدمہ پہنچ رہاہے۔لوگوں کو روٹی پانی کی فکر ہے۔مہنگائی کے رونے دھونے ہیں۔ ایسے میں خرید کر تو کتاب پڑھنے والے خال خال ہیں۔ پھراگر لائبریری سے لے کر پڑھنے والے ہیں توڈھونڈے سے نہیں ملیں گے۔بس اب کتابیں تو شو شا کے لئے ہیں۔ ڈرائنگ روموں کے شوکیں بھرے ہیں۔جس کا گھر ہے اس کی تعریف ہے۔ مگر خود اس گھروالے نے بھی یہ کتابیں نہیں پڑھیں۔ ہاں بطور ِ فیشن رکھی ہیں۔ کتابیں تو شو پیس ہیں کہ بیٹھک کی دہلیز میں قدم رکھنے والے پر رعب پڑے۔ اس کی شخصیت کا اس کے کردار کا۔اصل میں ہم پہلے بھی کتابوں سے آشنا نہیں تھے۔ مگر اب گوگل اور یوٹیوب نے سب کچھ کا تیا پانچا کر دیا ہے۔کون سی چیز ہے جو یوٹیوب پر نہیں ملے گی۔ اکثر کتابیں حوالے ان پر لیکچر تک اور ساتھ ان پر بنائے گئے ڈرامے سب کچھ اپ لوڈ ہے آپ ڈاؤن کریں اور ملاحظہ فرمائیں۔کتاب سے پوچھیں تم پر کیا گذر رہی ہے۔کبھی کسی نے کتاب کی آپ بیتی سنی ہے۔جو کہتی ہے مجھے تو ہاتھ میں تھامنا دور کی بات میری طرف کوئی دیکھتا بھی نہیں۔بازار کے بازار ضرورت کی چیزوں سے بھرے ہیں۔ پھر ان بازاروں میں روز کے روز گاہکوں کارش ہوتاہے۔ اشیاء کی خریداری جاری ہے۔مگر کتابوں کے بازار سنسان ہیں۔ہاں اگر وہاں کتابیں فروخت ہوتی ہیں تو وہ کورس کی کتابیں ہیں۔ جو طالب علم لڑکے لڑکیوں کی ضرورت ہیں۔ورنہ وہ سکول کالج میں فیل ہو جائیں گے۔ سو ان کو اپنے سسرال میں جہاں ان کی منگنی ہوئی ہے وہاں اپنی ناک اونچی کرنا ہے۔جس کے لئے ان کا نہ صرف پاس ہوناضروری ہے بلکہ اچھے نمبر لینا ہے۔سال تو پورا ہو چکا ہے کہ کورونا کے ناگ نے انھیں دنوں سر اٹھایا تھا۔یہ فروری کا درمیان ہی تھا۔ اس کے بعد سکولوں کو پے در پے چھٹیاں ملیں ہیں۔بچوں نے خوب عیش کی ہے۔ماں باپ کے سر پر ناچے ہیں۔گھر کے ماحول میں ان کی چھٹیوں کے کارن خوب دھما چوکڑی مچی ہے۔اس پورے سال میں یہ یہی بچے موبائل کے ساتھ خوب کھل کھیلے ہیں۔اتنا کہ اب تو وہ کتاب اٹھاتے ہیں اور اردو ہی سہی مگر کوئی سوال ان کے ذہن میں بیٹھتا ہی نہیں ہے۔بلکہ بعض بچے تو یہ کہتے ہوئے پائے گئے ہیں کہ سکول میں دل نہیں لگتا۔ پھر ان کی پڑھائی کورس اور کتابیں اتنی مشکل ہیں کہ گھر میں ماں باپ تو ان کی مدد کرنے سے قاصر ہیں۔ماں باپ نے بھی ان کو سکول کے اساتذہ کے رحم وکر م پر چھوڑاہواہے۔خو د اس فرض سے سبکدوش ہوگئے ہیں۔پھر وہ اگر ہوم ورک میں بچوں کی ہیلپ بھی کریں تو خود ان کو بھی کچھ آتا جاتاتو ہو۔ جو ماں باپ لکھے پڑھے نہیں ہیں وہ تو اس شمار میں نہیں ہیں۔ جو تعلیم یافتہ ہیں وہ ہر سکول کے الگ الگ سلیبس سے عاجز آچکے ہیں۔سکول کامعاملہ بہت التوا کاشکارہو چکا ہے۔ آئے دن سکولوں کے بند ہونے کے سبب معاملہ بہت بگڑاہوا ہے۔سکولوں اور ٹیوشن اکیڈمیو ں میں والدین اساتذہ کی ہر ماہ میٹنگ کا پروگرام ہو رہاہے۔ہر ماں باپ بچے کے ٹیچر سے پوچھتا ہے کہ میرے بچے نے نمبر کم کیوں لئے  ہیں۔ پچھلے مڈ ٹرم کے ایگزام میں تو اس کی کارکردگی اچھی تھی۔ خدا واسطے کی بات ہے کہ اگر بچے کو ماں باپ گھر میں نہ پڑھائیں اور انھوں نے سکول کے استادوں ہی پر تکیہ کر رکھا ہے تو لگ گئی یہ نیا کنارے۔اس معاملے میں پرائیویٹ سکول سرکاری سکولوں سے بہتر ہیں۔والدین خود موبائل میں گم ہوں وہاں سکول کے طالب علم یونی کے طلباء وطالبات کتابوں کے لئے پریشان کیو ں ہوں گے۔ ان کی لائبریریو ں میں توالو بول رہے ہیں۔والدین اور ٹیچر میٹنگ میں بچوں کے والدین سکول ٹیچروں کو غفلت کا مرتکب قرار دینے کی ہلکی سی کوشش کرتے ہیں۔یہ معاملہ دو طرفہ ہے۔یہ تالی دونوں ہاتھوں سے بجے گی۔ ٹیچر ہی اکیلے قصوروار نہیں ہیں۔ بچے کے گھر کا ماحول جو ان کے ممی پپا نے بنایاہواہے اس میں کمزرویاں ہیں۔سال ڈیڑھ کا بچہ اگر موبائل بغیر نہیں رہ سکتا تو اس سے زیادہ عمر کے بچوں کو بھلاکتاب کے ساتھ کیا سروکار ہے۔یہا ں تو یونیورسٹی سے فارغ ہونے والے سٹوڈنٹس کا حال یہ ہے کہ وہ نوکری کاامتحان پاس کرنے کے لئے کتابیں پڑھتے ہیں۔ مگر جب نوکری مل جائے تو کتابیں ہاتھ سے چھوٹ جاتی ہیں۔ پھروہ شادی کے چکر میں پڑجاتے ہیں یاپھر ماں خودان کے سر پہ سہرا دیکھنے کی خواہش پہ جینے لگتی ہے۔پھر جب شادی کے بندھن میں بندھ جاتے ہیں تو پھر یہ دو ایک سال کے بعد گود میں بچہ اٹھائے سسرال میں شادی بیا ہ اور دیگر تقاریب میں آتے جاتے ہیں۔ یوں کتاب پڑھنے کی یہ جستجو خودبخود دم توڑدیتی ہے۔مگر ایسے حالات میں بھی ایسے ہیں کہ کتاب کادامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے۔پھر کتاب بھی ان کو ترک نہیں کرتی۔پھر وہ کوئی نہ کوئی زیادہ اچھامقام پا ہی لیتے ہیں۔