اِنٹرنیٹ پر منحصر سماجی رابطہ کاری کے وسائل پر امریکی کمپنیوں کی ’اجارہ داری‘ ختم کرنے کیلئے جاری کوششوں میں تازہ ترین بھارتی کوشش ہے‘ جس کی سرکاری سرپرستی اور تعاون سے ’کو (Koo)‘ نامی ایپ متعارف کروائی گئی ہے جسے راتوں رات بھارت کے اندر اور بیرون ملک مقیم بھارتیوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا ہے اور بھارتی ذرائع ابلاغ اِسے ’ٹوئیٹر‘ کے متبادل کے طور پر پیش کر رہے ہیں‘ یہاں تک کہ ’ٹوئیٹر پر پابندی (#BanTwitter)‘ کا مطالبہ (ہیش ٹیگ) بھی زیربحث ہے۔ 10 ماہ پہلے متعارف ہونے والی بھارتی سوشل میڈیا ایپ کو 30 لاکھ مرتبہ حاصل (ڈاؤن لوڈ) کیا جا چکا ہے تاہم بھارتی سوشل میڈیا صارفین کی ایک تعداد اِسے حکمراں جماعت ’بھارتیہ جنتا پارٹی (BJP)‘ جس پر انتہاپسندی اور ہندو مذہب کے سخت گیر و ریاستی اطلاق جیسے الزامات ہیں کی تشہیری حکمت عملی کا حصّہ سمجھتی ہے اور اِس کی مخالفت بھی جاری ہے۔ سماجی رابطہ کاری کے وسائل پر نظر رکھنے والے عالمی اِرادے ’بوفرز ڈاٹ کام (Buffer.com)‘ کے جاری کردہ جائزے (درجہ بندی) کے مطابق سوشل میڈیا پر حکمرانی کرنے والی ایپس (Apps) میں ٹوئیٹر 12ویں نمبر پر ہے‘ جس کے فعال صارفین کی تعداد ساڑھے 33 کروڑ (335ملین) سے زیادہ ہے۔ جبکہ سرفہرست گیارہ وسائل میں فیس بک (facebook) صارفین کی تعداد 2.23 ارب سے زیادہ‘ یو ٹیوب کے صارفین کی تعداد قریب 2 ارب‘ واٹس اَیپ صارفین کی تعداد ڈیڑھ ارب‘ فیس بک میسنجر کے صارفین کی تعداد 1.3 ارب‘ وی چیٹ صارفین کی تعداد 1.06 ارب اور اِنسٹاگرام صارفین کی تعداد ایک ارب ہے۔ سوشل میڈیا پر حکمرانی کرنے والی پہلی 6 ایپس جن میں سے ہر ایک کے صارفین کی تعداد ’ایک ارب‘ سے زیادہ ہے اور یہی اَصل خطرہ ہیں‘ جس کا جواب دینا آسان نہیں اور نہ اِن کے متبادل کسی ایپ کی عالمی سطح پر پذیرائی ممکن ہے تاہم خوش آئند یہ ہے کہ بھارت اور اِس سے قبل چین نے دنیا کو یہ سوچ دی کہ امریکی سوشل میڈیا ایپس کی اجارہ داری ختم ہونی چاہئے حالانکہ سوشل میڈیا کی ضرورت اور آغاز ہی اِس لئے ہوا تھا کہ اِس کے ذریعے اظہار خیال کی آزادی پابندیوں سے بالاتر ہو‘ رازداری برقرار رہے اور صارفین کی اجازت کے بغیر اُن کے کوائف اور بات چیت تک غیرمتعلقہ افراد یا حکومتی اداروں کو رسائی نہ دی جائے۔ٹوئیٹر کا جواب دیتے ہوئے بھارت کی سوشل میڈیا ایپ ’کو (Koo)‘ ایک ایسا ’دیسی نسخہ‘ ہے جسے تشکیل کرتے ہوئے تخلیقی صلاحیتوں سے زیادہ کام نہیں لیا گیا اور ہو بہو ٹوئیٹر کی شکل و صورت اور اُس جیسی سہولیات فراہم کر دی گئی ہیں لیکن اِس بھارتی کوشش کی خاص بات (لائق توجہ پہلو) یہ ہے کہ اِسے بھارتیوں کی نفسیات اور بھارتی سوشل رجحانات کو مدنظر رکھتے ہوئے تخلیق کیا گیا ہے۔ بھارت میں تیار ہونے والی بہت سی ایسی بہت سی ایپس وقت گزرنے کے ساتھ ختم ہو گئیں تاہم 50 لاکھ صارفین تک پہنچنے والی ’کو (Koo)‘ پہلی ایپ ہے‘ جسے ’بالغ‘ ہونے میں دو سے تین سال کا وقت لگے گا اور اِس کی کامیابی اُس صورت ممکن ہو گی جب بھارت کے وزیراعظم سے لیکر اِس کے وزرأ اور حکومتی اداروں کے ترجمانوں تک ساری ریاستی مشینری ٹوئیٹر کو خیرباد کہہ کر ’کو (Koo)‘ سے منسلک ہو جائے۔ ٹوئیٹر کا جواب دیتے ہوئے بھارتی کوشش پاکستان کیلئے بھی دعوت ِفکر و عمل رکھتی ہے۔ پاکستان کے سوشل میڈیا صارفین کی اکثریت کو معلوم بھی نہیں ہوگا کہ سال 2017ء میں ’ٹیلوٹاک (TelloTalk)‘ نامی ایک ایپ (app) متعارف ہوئی تھی جس پاکستان کی پہلی ’سوشل میڈیا‘ ایپ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ یہ ایپ آج بھی موجود ہے اور دس لاکھ سے زیادہ صارفین اِسے حاصل (ڈاؤن لوڈ) کر چکے ہیں لیکن چونکہ ہمارے سیاسی فیصلہ ساز اور حکومتی ادارے امریکی سوشل میڈیا ایپس (فیس بک‘ ٹوئیٹر اور واٹس ایپ) کا استعمال کرتے ہیں اِس لئے یہ میڈ اِن پاکستان ’دیسی نسخہ‘ بھی کارگر ثابت نہیں ہورہا۔ اصل و بنیادی ضرورت حکومتی سرپرستی کی ہے۔ ”ٹیلو ٹاک (TelloTalk)“ میں وہ سب کچھ ہے جو امریکی سوشل میڈیا ایپس فراہم کرتی ہیں بلکہ کئی سوشل میڈیا ایپس میں دی جانے والی سہولیات مجموعی طور پر ’ٹیلوٹاک‘ میں جمع کر دی گئی ہیں اور سب سے بنیادی بات یہ ہے کہ پاکستان میں تخلیق کی گئی اِس ایپ کو پاکستان کے خاص ماحول کو مدنظر رکھتے ہوئے تشکیل دیا گیا ہے جس میں مذہب‘ ثقافت اور زبان کے علاوہ اخلاقی قواعد کو بھی مدنظر رکھا گیا ہے۔ پاکستان میں سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کی تعداد بینک اکاونٹس سے زیادہ ہے اور سوشل میڈیا وسائل کا استعمال حکومت سے لیکر طب‘ تعلیم‘ زراعت‘ صنعت اور سیاحت جیسے اہم شعبوں میں ہو رہا ہے اور ضرورت طلب و مانگ کو سمجھنے کی ہے کہ اگر پاکستان کے اپنے سماجی ماحول اور ثقافت کو مدنظر رکھتے ہوئے سوشل میڈیا کے موجود مقامی وسائل کو اپنایا جاتا ہے کہ حکومت کی سرپرستی میں اپنے سوشل میڈیا وسائل کو ترقی دی جاتی ہے تو اِس سے لاتعداد سماجی شعبوں کے علاوہ سیاست کو بھی خدمات کی فراہمی اور عوام کی توقعات و ضرورت کے منظم و متحرک کرنے میں کماحقہ مدد لی جا سکتی ہے۔