پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) مقابلوں کا حسن اور دلوں کی ‘چیمپئن ٹیم‘ پشاور زلمی ہے جس نے ’پی ایس ایل‘ کی تاریخ میں سب سے زیادہ میچ جیتے ہیں اور اب تک ہوئے ستاون میچوں میں سے اکتیس میں کامیابی حاصل کی ہے۔ آج تک پی ایس ایل میں کوئی ٹیم اتنے میچ نہیں جیت پائی لیکن گزشتہ سیزن میں پشاور کی کارکردگی قدرے مایوس کن رہی جس کی کئی وجوہات ہیں جیسا کہ سیزن کے دوران سیمی کا اچانک قیادت چھوڑ دینا اور پھر اہم ترین میچوں میں شکست اور بارش کا سامنا ہونا۔ بہرحال اب نئے ارادوں اور نئی امنگوں کے ساتھ زلمی پھر سے میدان میں ہے۔ قیادت دوبارہ وہاب ریاض کے کاندھوں پر ہے جبکہ ڈیرن سیمی ہیڈ کوچ کی حیثیت سے موجود ہوں گے۔ پی ایس ایل دوہزاراکیس مقابلوں کے ڈرافٹ کے لئے پشاور زلمی نے پانچ کھلاڑیوں کو برقرار رکھا‘ کپتان وہاب ریاض‘ تجربہ کار شعیب ملک‘ کامران اکمل‘ نوجوان حیدر علی اور برطانیہ کے لیام لوِنگسٹن۔ اس کے بعد کھلاڑیوں کے انتخاب کا مرحلہ آیا تو پہلی نظرِ انتخاب جنوبی افریقہ کے طوفانی بیٹسمین ڈیوڈ مِلر پر گئی۔ ڈائمنڈ کیٹیگری میں پشاور نے اپنی باو¿لنگ سے دنیا کو حیران کرنے والے نوجوان افغان باو¿لر مجیب الرحمٰن کا انتخاب کیا اور ساتھ ہی ویسٹ انڈیز کے شرفین ردر فرڈ کا بھی۔ گولڈ کیٹیگری میں عماد بٹ اور پھر سلور میں عمید آصف‘ ثاقب محمود‘ امام الحق‘ عمران اور عرفان کا انتخاب کیا گیا۔ ابرار اور عمران کا انتخاب ایمرجنگ کیٹیگری میں ہوا جبکہ سپلیمنٹری کھلاڑیوں میں روی بوپارا اور عامر خان کا انتخاب کیا گیا۔ یوں مجموعی طور پر ایک متوازن ٹیم تخلیق کی گئی ہے‘ جس میں تجربہ کار اور جانے مانے کھلاڑیوں کے ساتھ ساتھ نوجوان اور ابھرتے ہوئے کھلاڑیوں کا امتزاج نظر آتا ہے۔پشاور زلمی کا پی ایس ایل ریکارڈ خاصا شاندار ہے۔ ٹیم نے مسلسل تین مرتبہ فائنل کھیلا ہے اور ایک مرتبہ کامیابی حاصل کرکے چیمپیئن بھی بنی ہے لیکن گزشتہ سیزن میں نہ صرف پشاور بلکہ اس کے روایتی حریف کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی کارکردگی بھی مایوس کن رہی۔ یہی وہ ٹیمیں ہیں جو ابتدائی چا رسیزنز میں سب سے زیادہ کامیاب رہی تھیں لیکن پی ایس ایل کے مکمل طور پر پاکستان منتقل ہوتے ہی گویا کایا پلٹ گئی۔ سب سے ناکام ٹیمیں کراچی کنگز اور لاہور قلندرز فائنل تک پہنچیں جبکہ کامیاب ترین کوئٹہ اور پشاور پہلے ہی مرحلے میں باہر ہوگئے۔ یہ محض اتفاق تھا یا واقعی پاکستان میں حالات اتنے مختلف ہیں؟ اس کا اندازہ رواں سیزن میں ہو جائے گا۔ پھر ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ پشاور اور کوئٹہ ہی ایسی ٹیمیں ہیں جن کو اپنے ہوم گراو¿نڈ اور ہوم کراو¿ڈ کے سامنے کھیلنے کا موقع نہیں ملا۔ کراچی کنگز نے اپنے بیشتر میچ کراچی میں کھیلے‘ قلندرز نے لاہور میں‘ اسلام آباد یونائیٹڈ نے پنڈی اسٹیڈیم میں جبکہ سلطانز نے اپنے شہر ملتان میں۔ رہ گئی باقی دو ٹیمیں یعنی پشاور اور کوئٹہ‘ تو ان کو تمام میچ اپنے حریفوں کے میدان میں کھیلنے پڑے۔ ہوسکتا ہے یہ اتنا بڑا ’فیکٹر‘ نہ لگتا ہو لیکن یہ کارکردگی پر ضرور اثر انداز ہوا ہوگا۔ ایک کھچا کھچ بھرے نیشنل اسٹیڈیم میں کہ جہاں ہزاروں تماشائی کراچی کنگز کے نعرے بلند کر رہے ہوں، وہاں حریف کو شکست دینا ایک مشکل کام ہوتا ہے۔ پشاور کی کارکردگی میں زوال آنے میں ایک اور کردار غالباً قیادت کی تبدیلی کا بھی ہوگا۔ پچھلے سیزن کے دوران ڈیرن سیمی کا اپنے فٹنس مسائل کی وجہ سے قیادت چھوڑ دینا اور اچانک بوجھ وہاب ریاض کے کاندھوں پر منتقل ہو جانا بھی ایک اہم عنصر ہو سکتا ہے۔ بہرحال‘ اپنے شاندار ماضی اور نام کی بدولت ’پشاور زلمی‘ کے امکانات اب بھی کافی ہیں۔ ’فین سپورٹ‘ کے معاملے میں زلمی پاکستان کی بہترین ٹیم ہے اور اس سال بھی انہوں نے چند ایسے اقدامات اٹھائے ہیں جن سے ان کے پرستاروں میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے لیکن اصل کام ہے میدان میں کچھ کر دکھانے کا۔ گزشتہ سال آخری مرحلے میں ملتان اور لاہور کے خلاف دو اہم میچوں میں شکست کی وجہ سے زلمی کی پیشرفت کا خاتمہ ہوگیا تھا۔ اس لئے رواں سال فیصلہ کن مرحلے پر سنبھلنا ہوگا ورنہ وہی ہوگا جو پچھلے سال ہوا۔ پی ایس ایل تاریخ میں کارکردگی کے لحاظ سے نمایاں ترین کھلاڑی زلمی کے پاس ہی ہیں‘ سب سے زیادہ رنز بنانے والے بیٹسمین‘ سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے باو¿لر اور وکٹوں کے پیچھے سب سے زیادہ شکار کرنے والے وکٹ کیپر تک سب ’پشاوری‘ ہیں۔ انفرادی و اجتماعی دونوں لحاظ سے پشاور زلمی کا ریکارڈ شاندار ہے لیکن اصل مسئلہ نئے ماحول میں خود کو ایڈجسٹ کرنے کا ہے اُور اُمید ہے کہ اِس مرتبہ ’زلمے‘ اپنے پرستاروں کو مایوس نہیں کریں گے۔