رومانوی ہیرو۔۔۔

 پشاور بلکہ پشور کا پشوری پُتر دلیپ کمار 11دسمبر 1922ءکو یہاں محلہ خدادادکے ایک مکان میں پیدا ہوا۔ وہ اس سا ل انشا ءاللہ ایک کم سو برس کے ہوجائیں گے۔اصل نام تو خیر یوسف خان ہے۔ مگر ماضی میں والد سے چھپ کر اداکاری کرنے لگے ۔اصل نام سے کرتے تو والد کو پتا چل جاتا۔ لہٰذا دوتین ناموں پر غور ہوا ۔ جن میں دلیپ کمار چن لیا گیا۔ اس ہیرو نے اپنے ساٹھ سالہ کیریئر میں صرف 63فلموں میں اداکاری کی ۔ہرچند ان کی کوئی فلم اگر فلاپ ہوئی مگر بطور ِ ہیرو وہ کسی بھی فلم میں ناکام نہیںہوا۔ ٹریجیڈی کنگ فلمی دنیا کایہ صاحبِ عالم اپنی کم تعداد کی فلموںکے باوجودفلم دنیا کے شہنشاہِ جذبات کی حیثیت سے بے تاج بادشاہ ہےں۔ جب سے بلیک اینڈ وائٹ فلم انڈسٹری سٹارٹ ہوئی اب تک بیشتر اداکاروں کی پرفارمنس پر دلیپ کمار کی پرچھائیاں ہیں ۔پشاور کے بعض اداکار بھی ان کے سٹائل کو فالو کر تے نظر آجاتے ہیں ۔دو اطراف کی فلم انڈسٹری ابھی تک ان کی اداکاری کے جادو سے نہیں نکل سکی۔دیو آنند ، راج کپور اور راجیش کھنہ کا اپنا الگ سٹائل تھا۔مگر وہ دلیپ کے مقابلے میں اتنا پر اثر اور پرکشش نہ تھا۔ پاکستانی حکومت نے دلیپ کو 1998ءمیں سب سے بڑا سول ایوارڈ نشانِ پاکستان دیا۔ اداکار کی یا کسی بھی فنکا ر کی تو خیر کوئی زبان نہیں ہوتی ۔ دلیپ کمار ہندکو بولتا ہے ۔مگر پشتو بولتے ہوئے بھی وہ بہت خوب لگتا ہے۔جیسے لیجینڈ اداکار قوی خان پشتون ہو کر اپنی زبان کو نہیں بھلا سکے ۔احمد فراز ہندکو بولتے تھے۔ مگر پشتو بھی روانی سے بولتے ۔اس وقت بہت اچھے لگتے۔میں نے فراز کو پشتو بولتے ہوئے پشاور کی محفلو ںمیں دیکھا تو حیرانی ہوئی کہ یہ تو ہم جیسا ہے ۔فنکار کے فن کی نہ تو اپنی کوئی زبان ہوتی ہے اور نہ ا س کی کوئی سرزمین ہو تی ہے ۔ہر زمین اس کی ہے اور سب لوگ اسی کے ہوتے ہیں۔ ہمارے جان وجگر انور خان جوانی میں دنیا چھوڑ گئے ۔ایک بار انھوں نے پشاور میں خانہ ¿ فرہنگ ِ ایران کے ہال میں دورانِ پروگرام سٹیج پر چڑھ کر فراز کے آگے جھولی پھیلائی کہ صرف ایک غزل ہی اپنی زبان ہندکو میں تخلیق کر دیں۔مگر فراز اردو کےلئے بنے تھے ۔انھوں نے شاعری میں کسی اور زبان کو اختیار نہیں کیا۔حالانکہ فیض احمد فیض او رمنیر نیازی نے تو پنجابی میں بھی شاعری کی۔یہ سن 1988ءکی بات ہے ۔میں سٹیٹ آفس سول سیکرٹریٹ کے پی پشاور میں5سکیل میں جونیئر کلرک تھا۔ اپنے کام میں مشغول تھا۔کمر ے کے باہر ایس اینڈ اے جی ڈی کے محکمے کے دفاتر بھی تھے۔یہ قدیم عمارت کی بات ہو رہی ہے ۔اب تو وہ سارا سٹرکچر ڈھا کر چیف سیکرٹری اعجازرحیم کے زمانے میں برسوں پہلے نیا بنا یا گیاہے ۔کھڑکی کے باہر ہل چل سی نظر آئی۔ سپرنٹنڈنٹ اسرائیل صاحب سے پوچھا باہریہ کیا ہورہاہے ۔انھوںنے کہا دلیپ کمار آ رہا ہے۔ چیف منسٹر نے ان کےلئے کمیٹی روم میں چائے کا اہتمام کیا ہے ۔ کمیٹی روم دس قدم کے فاصلے پر تھا۔یہ سنتے ہی میں نے ڈائری رجسٹر وہیں چھوڑا اور باہر نکل کرکھڑا ہو گیا۔کمیٹی روم کے باہر سرکاری اہل کاروں کی دو طرفہ قطار بن گئی۔میں بھی لائن میں کھڑاہوگیا۔ کچھ لمحوں ہی میں دلیپ کمار کی گاڑی سنٹرل پولیس آفس والے گیٹ سے اندر داخل ہوئی ۔ اس گاڑی کی چھت نہیں تھی۔سائرہ بانو اور دلیپ کمار گاڑی سے اُتر ے ۔ انتظار میں کھڑے افراد کے ساتھ باری باری ہاتھ ملایا۔ میرے پاس جو اعزازات ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ میں نے اس وقت دلیپ کمار سے ہاتھ ملایا تھا۔امن و سکون کا زمانہ تھا بھیڑ بھاڑ نہ تھی سیکورٹی نہ تھی۔دہشت گردی نے توکہیں پندرہ سالوں کے بعد آناتھا۔ دلیپ کے ہاتھوں کا لمس اب بھی میرے ہاتھوں میں محفوظ ہے۔ ایک اعزاز اور بھی ہے۔ سال پہلے جب محلہ سیٹھیان پشاور کے قدیم طرزِ تعمیر والے گھروں والی گلی کے ایک قدیم گھر میں جسے میوزم بنایا دیا گیاہے فلم کی شوٹنگ ہو رہی تھی ۔شہر کے مرد و خواتین سارا سارا دن وہاں گلی میں کھڑے ہو کر فلم سٹارمائرہ خان کابھی انتظار کرتے کہ کہیںسے ایک جھلک نظر آجائے۔بیگم کے بھائی صاحب پپاامتیاز وہاں رہتے ہیں۔دور تک میرے وہم و گمان میںبھی نہ تھا کہ ایسا ہوگا۔ وہاں تنگ گلی میں ہماری بائیک کے آگے کالی گاڑی تھی ۔میں کڑھنے لگا کہ اب گلیوں میں بھی گاڑیاں آنے لگی ہیں۔ گاڑی آگے سے ہٹے راستہ ملے تو میں اوپر کو جا¶ں۔ گاڑی رکی تو اس میں سے فلم سٹار ندیم باہر آئے۔ جوں میں نے دیکھا تو بائیک کو وہیں چھوڑا او ر جاکر ان سے ہاتھ ملایا۔