ہم نے فلمیں دیکھ کر اور ٹی وی ڈراموں کو انجوائے کر کے اپنی بھلی چنگی زندگی برباد کر دی ہے ۔سلور سکرین پر ایک خاص ماحول دکھلاتے ہیں ۔ ڈراموں کی اس فضاکا تعلق اکثر و بیشتر اونچے رہن سہن کے گھرانو ںسے ہوتا ہے۔لیکن اگر نہ بھی ہو اورغربت دکھلائی جائے ۔مگر یہ قدرتی ہے کہ ہم لوگ ڈرامہ میں انھیں صاحبِ حیثیت کرداروں پر نگاہ رکھتے ہیں جو غربت کے خط سے بہت اوپر زندگی گزارتے ہیں۔ وہ نوجوان ناظرین جن کا تعلق غریب گھرانوںسے ہوتا ہے زیادہ طور پر غلط سبق سیکھ لیتے ہیں۔ جن میں لڑکیوں اور لڑکوں کی تعداد بہت زیادہ ہے ۔وہ ان مالدار لوگوں جیسی زندگی دیکھ کر اس کی تمنا میں اپنی موجودہ زندگی کو آگ لگا دیتے ہیں۔حالانکہ دیکھنا ہے تو اپنے سے کمتر کو دیکھو تاکہ اپنی موجودہ حیثیت پر شکر حاصل ہو اور بندہ کے دل کو صبر آئے۔ مگر کیا کریں کہ ٹی وی ڈراموں اور فلموں کی یہی ڈیمانڈ ہے ۔عوامی تقاضوں کے مطابق فلموں کو ترتیب دیا جاتا ہے ۔ مگر عام زندگی کچھ اورہے ۔جو دیوار کی دوسری طرف جاری و ساری رہتی ہے۔ یہاں سکرین پر تو گلیمر ہوتا ہے ۔جس کو عارضی چکاچوند کہتے ہیں۔ایک اداکارہ اور اداکار کبھی بوڑھے دکھائی ہی نہیں دیتے۔ کیونکہ میک اپ اور دیگر لوازمات سے ان کو ہمیشہ جوان کر کے ہی دکھلایا جاتا ہے ۔حالانکہ حقیقی زندگی میں ان کی عمر کے لوگ کب کے بوڑھے ہو جاتے ہیں۔ جن کے بالوں پر وقت نے سفید برش کے سٹروک لگا دیئے ہوتے ہیں۔یہ گلیمر کی دنیا ہے ۔ جو جیسے نظر آتے ہیں ویسے نہیں ہوتے اور جو حقیقت میں ہوتے ہیں وہ ویسے نہیں ہوتے۔ٹی وی کے شیشے پر نظر آنے والے کردار بھی تو اندر سے دکھی ہوتے ہیں ۔کسی کو کیا کسی کو کیا ٹریجیڈی ہو تی ہے ۔ہر ایک کا اپنا دکھ ہے ۔وہ اپنا آپ بھلاکر اپنے دکھوں کو ایک طرف رکھ کر گاتے بجاتے اور اداکاری کے جوہر دکھلاتے ہیں۔ اندر اُداسی ہے مگر کیا مجال کہ چہرے پر اُداسی کے سائے لائے ۔کیونکہ ڈرامہ کی شوٹنگ میں ہنسی مذاق ہو رہاہوتاہے۔فن تو یہی ہے کہ اپنے آپ کو اگنور کر کے وہ کردار جو اسے دیا گیا ہے اپنے اوپر طاری کر دے۔ایسی کئی ایک مثالیں ہیں جو پیش آئی ہیں۔وہ لوگ جو ہنساتے ہیں وہ اندر سے زیادہ دکھی ہوتے ہیں۔ فلم سٹار ننھا کی مثال کہ جسے دیکھتے ہی فلم بینوں کی ہنسی چھوٹ جاتی اندر سے ٹوٹاہواتھا ۔پھر اس کی موت کن حالات میں ہوئی ہے۔سب ناظرین کرداروں کو دیکھتے ہیں ۔ان کی پرفارمنس پر تعریف کے ڈونگرے برساتے ہیں۔ انھیں کو ایوارڈ ملتے ہیں۔مگر رائٹر کو پروڈیوسر کو اکثرنظر انداز ہی کر دیا جاتا ہے ۔یہ تو پتا ہی نہیں ہوتا کہ ڈرامہ لکھا کس نے ہے ۔پھر ڈرامہ کی ہدایات کس نے دی ہیں۔پھر نہ ہی عام خلقت کا ان کے ناموں کے ساتھ کوئی سروکار ہوتا ہے ۔” جو چمکتے ہیں وہی رات کا سرمایہ نہیں ۔راکھ ہے کتنے ستاروں کی شبِ تارکے پاس “۔سیاہ آسمان کی سکرین پر رات کے وقت جو ستارے چمکتے ہیں وہی تو آسمان کو حسین نہیں بناتے۔ بلکہ وہ ستارے جو نظر ہی نہیں آتے وہ بھی تو اس منظر میں موجود ہوتے ہیں۔بلکہ جب صبح ہوتی ہے تو وہ ستارے جو نظر نہیں آتے تھے وہ بھی صبح کو لانے کےلئے اپنے وجود کی قربانی دے چکے ہوتے ہیں۔ ٹی وی سکرین کے ایک کامیاب ڈرامے کے پسِ پردہ کون کون ہوتاہے اور اس نے اس تمثیل میںاپنے کردار کا کیاحصہ ڈالا ہوتا ہے کسی کو کیا خبر ہوتی ہے۔کیمرہ مین سے لے کر لائٹ پھر ڈیزائننگ میک اپ روم او رجانے کون کون سے شعبے ہیں جن کے کارکن اس ایک کامیاب ڈرامہ کے پیچھے چھپے ہوتے ہیں ۔جنھوں نے ا س فلم کو کامیاب بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہوتا ہے۔ ہماری ذہنی خرابی یہ ہے کہ ہم جس کردار کو مالدار دیکھتے تو سمجھ لیتے ہیںجیسے یہ عام زندگی میںبھی اسی طرح ایک اونچی حیثیت کا مالک ہوگا۔ ڈراموں میں تو ایک آئیڈل زندگی کانقشہ بنایاجاتا ہے۔ہر چند دکھی حالات بھی ہوتے ہیں ۔مگر ہماری نگاہ اس طرف جاتی نہیں۔ہم سے زیادہ تو دکھی یہ لوگ ہوتے ہیں جو سلور سکرین پر خوشحالی کے روپ میں آتے ہیں۔مگر ان کی اصل زندگی کے بارے میں کسی کو جانکاری حاصل نہیں ہوتی۔وہ بھی کتنے خفیہ لوگ ہوتے ہیں جو ان فنکاروں کی مالی مدد کرتے ہیں ۔وہ لوگ خود بھی اداکار ہوتے ہیں۔میڈم نورجہاں کو لیں ادکارمحمد علی او ر معین اختر سخاوت کی اسی راہ کے شہہ سوار تھے۔حالی کا شعر ہے ” بہت جی خوش ہوا حالی سے مل کر ۔ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں“۔ میں نے مرحومین کا ذکر کیا جن میںاور نام بھی ہیںجو اس وقت اپنی زندگی جی رہیں ہیں۔نام لکھ دینے سے شاید ناراض ہوں اس لئے احتیاط کو ملحوظ رکھا ہے۔