این ایف سی کا نیا تنا زعہ۔۔

نئی خبر یہ ہے کہ خیبر پختونخوا کی حکومت نے این ایف سی ایوارڈ میں صو بے کے حصے کی رقم کا ٹنے کا مسئلہ وفاقی حکومت کے ساتھ بھر پور انداز میں اٹھا نے کا فیصلہ کیا ہے اس سلسلے میں محکمہ خزانہ کی ٹیم اعداد و شمار جمع کر رہی ہے حقا ئق کی بنیاد پر کیس بنا کر وفاقی حکومت کو پیش کیا جائے گا صو بائی حکومت وسائل کی تقسیم کا فارمو لا بھی چیلنج کر رہی ہے گزشتہ دو سا لوں میں صو بائی حکومت نے محا صل کی آمد نی بڑ ھا دی ہے اب صوبائی محا صل میں 60فیصد اضا فہ ہوا ہے اس ما لیاتی کا ر کر دگی کو وسائل کی تقسیم کے فار مو لے میں شا مل کیا جا نا چا ہئے مو جود ہ فار مو لے کے تحت ریو نیو جنریشن اینڈ کو لیکشن کے بہا نے سے پنجا ب اور سند ھ کو 5فیصد اضا فی حصہ دیا جا رہا ہے حا لا نکہ ان صو بوں کی کوئی کار کر دگی نہیں فیڈرل بورڈ آف ریو نیو کے صدر دفاتر پنجا ب اور سندھ میں ہیں ان کے محا صل کو صو بائی حکومت کے کھا تے میں لکھ دیا جا تا ہے ما لیاتی ایوارڈ میں صو بوں کے حصے سے جو کٹو تی کی گئی ہے وہ غیر منصفانہ اور غیر قا نونی ہے 47ارب روپے کی کٹو تی میں بلو چستان کے حصے سے 15ارب روپے کا ٹ لئے گئے پنجا ب کو 13ارب سے محروم کیا گیا سند ھ کو 10ارب کا ٹیکہ لگا یا گیا جبکہ خیبر پختونخوا کے 9ارب روپے دبالئے گئے اور یہ پہلی ششما ہی کا حساب کتاب ہے اگلی ششما ہی میں کیا ہو گا اس حوالے سے کسی کو خوش فہمی میں نہیں رہنا چا ہئے دنیا بھر میں حکومتیں چاہتی ہیں کہ پرانے مسا ئل حل کئے جائیں اور نئے مسا ئل کو سرا ٹھا نے ہی نہ دیا جا ئے ہما رے ہاں اس کے بر عکس ہورہا ہے۔ وطن عزیز پا کستان میں عوام کے منتخب نمائندے عوام کو ہر روز کوئی نہ کوئی خو ش خبری دینے کے بجا ئے کوئی نہ کوئی مسئلہ کھڑا کر دیتے ہےں این ایف سی ایوارڈ کا مسئلہ بھی ایسا ہی ہے قو می ما لیا تی ایوارڈ کی لمبی چوڑی تاریخ ہے اس پر تما م صو بوں کا اتفاق ہو نا ضروری ہے اور یہ ایوارڈ اتفاق رائے سے ہی پا س ہوتا ہے پہلا قومی ما لیاتی ایوارڈ 1951میں منظور ہواتھا اگر صو بائی حکومتوں نے مل کر این ایف سی ایوارڈ سے اپنے حصے کی کٹو تیوں کو چیلنج کیا تو ایک نیا پینڈو را با کس کھل جائے گا اور ایسے مسائل پیدا ہونگے جو آٹھویں این ایف سی ایوارڈ تک حل نہیں ہو نگے ۔ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ مسائل کے حل کیلئے جو میکنزم موجود ہے اس سے فائدہ اٹھایا جائے اور جن معاملات پر اتفاق رائے پہلے سے موجود ہے اس کو متنازعہ بنانے سے گریز کیا جائے۔