اعلیٰ تعلیم: وسعت کی گنجائش۔۔۔

پاکستان میڈیکل کمیشن (وفاقی اِدارے) کی ویب سائٹ (pmc.gov.pk) پر موجود اعدادوشمار کے مطابق ملک میں طب (ایم بی بی ایس) اُور ڈینٹل (بی ڈی ایس) تعلیم کے کل اِداروں کی تعداد176 ہے‘ جن سرکاری میڈیکل کالجز 45 اُور سرکاری ڈینٹل کالجز 17 جبکہ 72 پرائیویٹ میڈیکل کالجز اور 42 پرائیویٹ ڈینٹل کالجز ہیں۔ اِن اعدادوشمار سے عیاں ہے کہ سرکاری تعلیمی اِداروں (62) کے مقابلے نجی اِداروں (114) کی طب کے شعبے پر اَجارہ داری ہے۔ الگ موضوع ہے کہ یہ سرکاری و نجی میڈیکل و ڈینٹل کالجز ڈویژنز یا اضلاع کے حساب سے قائم نہیں اور اِن میں نشستیں بھی نہ تو ہر سال داخلوں کے اہل طلبہ کی تعداد کے مطابق ہیں اور نہ ہی اِن میڈیکل و ڈینٹل کالجز میں فراہم کئے جانے والے تعلیمی مواقعوں میں ہرسال اضافہ ہو رہا ہے۔ صرف ایک مثال اِس صورتحال کو سمجھنے کے لئے کافی ہے کہ خیبرپختونخوا کے 6 پرائیویٹ ڈینٹل کالجز میں سے 3 پشاور جبکہ 3 ایبٹ آباد میں قائم ہیں اور اِنہیں شروع دن سے سالانہ (زیادہ سے زیادہ) 50 طلبہ کے داخلے کی اجازت دی گئی ہے۔ اِسی طرح خیبرپختونخوا کے 4 سرکاری ڈینٹل کالجز پشاور‘ ایبٹ آباد‘ مردان اور کوہاٹ میں قائم ہیں جن سے سالانہ مجموعی طور پر 250 طلبہ فارغ التحصیل ہوتے ہیں یوں سرکاری و نجی ڈینٹل کالجز میں مجموعی طور پر 550 طلبہ کی گنجائش ہے جبکہ داخلے سے محروم رہنے والوں کی تعداد ہزاروں میں ہوتی ہے اور خیبرپختونخوا کے ہر سال چالیس ہزار سے زیادہ داخلوں سے محروم رہ جاتے ہیں جبکہ اَندرون و بیرون ملک میڈیکل و ڈینٹل تعلیم میں داخلہ حاصل کرنے والوں کو بھی معیار تعلیم اور انتظامی امور سے متعلق اِطمینان نہیں۔ ذہن نشین رہے کہ خیبرپختونخوا کے کل اضلاع کی تعداد34 ہے جبکہ 28 مئی 2018ءکے روز منظور کی گئی ”31ویں آئینی ترمیم“ کے بعد 7 قبائلی علاقے اُور فرنٹیئر ریجنز جو اِس سے قبل بالترتیب وفاق اُور صوبے کے زیرانتظام تھے اُنہیں بھی خیبرپختونخوا کے 7 ڈویژنز (مالاکنڈ‘ ہزارہ‘ مردان‘ کوہاٹ‘ بنوں اور ڈیرہ اِسماعیل خان) میں ضم کر دیا گیا ہے جس کے بعد خیبرپختونخوا میں دستیاب تعلیم اور بالخصوص اعلیٰ تعلیم کے شعبے پر دباو¿ بڑھا ہے کسی بھی سطح (درجے) کی تعلیم میں نجی اداروں کی شراکت (سرمایہ کاری) میں حرج نہیں لیکن اِس سرمایہ کاری کے ساتھ قواعد و ضوابط پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے جبکہ زیادہ سے زیادہ منافع کی شرح کا تعین بھی ضروری ہے کہ کسی ادارے میں فی طالب علم منافع کس قدر جائز ہے۔ لیکن اگر تعلیم کو کاروبار ہونے کے باوجود بھی کاروبار نہ سمجھا جائے تو اِس سے خاطرخواہ بہتر نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ اِس مرحلہ¿ فکر کے 2 پہلو لائق توجہ ہیں اور وہ یہ کہ نجی تعلیمی اداروں کے مالکان اور شراکت داروں کے پاس محبت اور نفرت جیسی اقدار ہیں۔ محبت وہ مالی منافع ہے جو مالکان و شراکت دار نہایت ہی خاموشی سے آپس میں تقسیم کر لیتے ہیں اور کسی کو کان و کان خبر نہیں ہوتی جبکہ آپسی اختلافات سے وجود میں آنے والی نفرت وہ قدر ہے جسے مالکان و شراکت دار ملازمین میں بانٹ دیتے ہیں جس سے اِداروں میں خوف و ہراس کا ماحول طاری رہتا ہے۔ سکون ِقلب (تعمیری ماحول اور نشوونما پر مبنی آب و ہوا) کے لئے ’سکون ِقلب (اِطمینان)‘ ضروری ہوتا ہے۔ ”یہی عادت تو ہے سعدی سکون ِقلب کا باعث .... میں نفرت بھول جاتا ہوں‘ محبت بانٹ دیتا ہوں (سعید اقبال سعدی)۔“ طب (ڈینٹل و میڈیکل) ہو یا کوئی بھی دوسرا شعبہ¿ تعلیم اگر اپنے اپنے مفادات کے گملوں (چھوٹے مقصد یعنی صرف مالی فائدے) کی بجائے شجر کاری زمین (بڑے مقصد یعنی درس و تدریس کی ترقی) میں کی جائے تو اِس سے نہ صرف تعلیمی اداروں سے حاصل ہونے والے پھل پھول (ثمرات) میں اِضافہ ہوگا بلکہ اِس سے خوبیوں کی صورت اِدارے بھی جنم لیں گے‘ ایسے اِدارے جن میں عمودی و افقی وسعت و بلندی کی گنجائش ہو گی۔