کہتے ہیں پل کے نیچے سے پانی گذرتا ہے ۔ مگر کہاں گذرتا ہے کس نے دیکھا ہے ۔اگر بارش نہ بھی ہو تو پانی نے تو گذرنا ہے ۔اگر زیادہ بارش ہو تو ظاہر ہے کہ زیادہ پانی گذرے گا۔مگر ہمارے ہاں تو منوں کے حساب سے مٹیاں ڈال کر پل کے پانی کو تو الٹا واپس موڑ دیا گیا ہے ۔ کہیں پانی کو روک دیاگیا ہے ۔روک دینے سے پانی گٹر کی صورت بن چکا ہے۔ پہلے یہا ںسے گند گریل اور کیچڑ بھی نکالا گیا تو بھاری مشینریوں کے ذریعے ۔ جو اب کچھ دنوں کے بعد اسی پرانی شکل میں واپس اپنی گندگی کی نحوست دکھلا رہاہے ۔یہ کیساپل ہے کہ بن ہی نہیں رہا ۔زمینیں کھود کر راستے او رسڑکیں بدل دیئے گئے ہیں ۔ٹریفک کے بہا¶ کو اور طرح اور رخ پر رواں کرنے کی ناکام کوشش کی گئی ہے ۔اگر جی ٹی روڈ پر ناگوار بُو کااحساس ہو تو سمجھو کہ پتا پوچھنے کی ضرورت نہیں رہی ۔ اب سپلائی روڈ آ گیا ہے ۔ جس کے کنارے پر دور سے آتی ہوئی نہر میں کھڑا پانی ایک بہت بڑے گٹرکی صورت اختیار کر چکاہے ۔پشاور کے اندر داخل ہوں اور جلد ہی آپ کو ابترسی ناگواری محسوس ہواور ناگوار بُو کے جھونکے آپ کا استقبال کرنے لگیں تو آپ سمجھ لیں کہ گلبہار کا موڑ آگیاہے ۔جہاں اس نہر کے راستے یہ نالہ اپنی پوری غلاظت سے بہتا ہے ۔جہاں اس وقت وہ بدبوہے کہ یہاں سے گذرنا محال ہے ۔مگر جو مجبورہیں او راسی راستے سے گھر کو لوٹنا چاہتے ہیں انھیں تو اس بدبودار ماحول میں سے ہو کر گذرناہوگا ۔اس کے علاوہ ان کے پاس او رکوئی آپشن موجود نہیں ہے۔” میں پل نہ باندھ سکا پانیوں کے دھارے پر ۔ وہ منتظر ہی رہا دوسرے کنارے پر“۔یہ کون سا پُل ہے جو بنائے نہیں بن رہا ۔پچھلے دور کے ایک وزیراعظم تھے ۔ان کے شہر ملتان میں ایک ماہ کے اندر اندر فلائی اوور بنا ۔بہت دھوم ہوئی ۔ ہم سے تو وہ پنجاب کے خادم اچھے تھے جوپلوں کی تعمیر کے وقت رات کے دو بجے بھی مزدوروں کے سر پہ جا کر کھڑے ہو جاتے۔وہ کام کی نگرانی کرتے ۔ وہاں سے پشاور کے کسی بندے کا کسی کا گذر ہوا تو پوچھا کہ آپ رات کو بھی کام کر رہے ہیں ۔مگر کیوں ۔ اس نے جواب دیا یار وہ اچانک آجائے گا ۔ مگرہمارے ہاں ایسا نہیں ہے۔کون آتا ہے کون پوچھتا ہے ۔وہ میر تقی میر کا شعر ہے کہ ” جو مجھے دیکھنے کو آتا ہے ۔ پھر مجھے دیکھنے نہیں آتا“ ۔ پل کو دیکھنے آتا ہوگا کوئی مگر کس وقت آیا کس نے دیکھا کچھ معلوم نہیں ۔ رات تو رات ہے شاید دن کو بھی اس پُل کو پوچھنے کوئی نہیں آتا۔ کوئی اگر پوچھے تو پُل کی تعمیر کے کام میں تیزی آئے۔ گئے ”وہ دن ہوا ہوئے کہ پسینہ گلاب تھا۔ اب عطربھی ملو تو وہ خوشبو نہیں رہی“اس شہرِ گل کوپھولوں کی راجدھانی کہا جاتا تھا ۔اب تویہاں بدبو کا راج ہے ۔کبوتر چوک دلہ زاک روڈ پر جو نہر کبھی گذرا کرتی تھی اس کا پانی منوں مٹیاں ڈال کر روک دیاگیا ہے ۔وہاں اب اس بہتی نہر کے اوپر تنگ پُل کو چوڑا چکلا کیا جاناہے ۔اس راہ پر جو سڑک آگے کو جاتی ہے وہاں دائیں بائیں یونیورسٹی کالجز اورسکول ہیں ۔اس راہ کی تنگی کے بارے میں عرصہ دراز سے شکایات تھیں ۔ اتنی تنگ کہ جیسے حسد کرنے والے کی نظر ہو ۔یہاں روز ایکسیڈنٹ ہوتے ہیں۔کالو خان کا تو دل تھک گیا تھا۔ روز کہتا اخبار میں دو اخبار والوں کو بلا¶ ۔اس پر کالم لکھو۔ یہاں تو سکول کالجز اور یونیورسٹی ہے ۔پھر رش اتنا کہ گاڑیاں ٹکرا جائیں کوئی گاڑی کے نیچے آ جائے کوئی موٹر سائیکل سوار اپنی بائیک کے سمیت پاس بہتے ہوئے نالے میں گر جاتے ہیں ۔یہ ہمارا آنکھوں دیکھا احوال ہے ۔ کوئی سنی سنائی باتیں نہیں ہیں۔ پُل تو بنتے ہیں اور سڑکیں بھی چوڑی چکلی کی جاتی ہیں۔ مگر شکایت یہ ہے کہ اس پراجیکٹ پر کام اتنی سست رفتاری سے جاری ہے کہ جیسے چیونٹی کو ٹاسک حوالے کر دیا جائے کہ ایک کلومیٹر کا فاصلہ جلد از جلد طے کرو۔جانے کب اس تعمیر کے کام میں تیزی آئے گی۔