طب کے تدریسی شعبے میں نجی تعلیمی اِداروں (میڈیکل اِینڈ ڈینٹل کالجز) کی اِہمیت اور کردار اپنی جگہ اہم ہے جن کی اعلیٰ تعلیم میں سرمایہ کاری کی وجہ سے ہر سال سرکاری (پبلک) کالجز سے زیادہ بڑی تعداد میں طلبہ فارغ التحصیل ہو رہے ہیں ذہن نشین رہے کہ نجی تعلیمی کالجز میں میڈیکل (بیچلر آف میڈیسن اینڈ بیچلرز آف سرجری‘ ایم بی بی ایس) کی 5 سالہ اور ڈینٹل (بیچلرز آف ڈینٹل سرجری‘ بی ڈی ایس) کے 4 سالہ تعلیمی دورانئے کی شرح فیس سالانہ قریب پندرہ لاکھ روپے ہے‘ یوں کسی نجی کالج سے ’ایم بی بی ایس‘ ڈاکٹر بننے پر 75 سے 80 لاکھ روپے جبکہ بی ڈی ایس ڈاکٹر بننے پر 60 سے 65 لاکھ روپے خرچ آتا ہے۔ اِس غیرمعمولی شرح فیس کے علاوہ نجی میڈیکل کالج عطیات کی مد میں لاکھوں روپے کا تقاضا کرتے ہیں‘ جو غیرقانونی عمل ہے صرف قوانین‘ قواعد سازی اور اِن پر عمل درآمد سے متعلق یاد دہانی کافی نہیں۔ سزا¿ و جزا¿ کا نظام بھی متعارف ہونا چاہئے اِن نجی تعلیمی اداروں میں یقینا ایسے بھی ہوں گے جو حکومتی قواعد پر (حسب حکم) سختی سے عمل درآمد کرتے ہوئے وہ سبھی سہولیات فراہم کر رہی ہوں گے جو کسی میڈیکل یا ڈینٹیل کالج کےلئے ضروری ہیں لیکن ایسے اداروں کی موجودگی سے بھی انکار ممکن نہیں‘ جن کے پاس نہ تو حسب قواعد اساتذہ (تدریسی افراد) ہیں اور نہ ہی خاطرخواہ تدریسی سہولیات موجود ہوں گی‘ جو حسب قواعد کسی بھی میڈیکل و ڈینٹل کالج کے پاس ہونا ضروری ہیں۔ تمام نجی میڈیکل کالجز کو ایک لاٹھی سے ہانکنے یا سب کو ایک جیسی مشکوک نظر سے دیکھنے کی بجائے‘ وقت ہے کہ تالاب کو گندا کرنے والی مچھلیوں کا صفایا کیا جائے۔ میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالجز (تعلیم) کی آڑ میں کاروبار اور اہلیت کا استحصال کرنے والوں کے خلاف ’بنا مصلحت حسب قواعد کاروائی‘ کی صورت میں تبدیلی (اِصلاح) آتی چلی جائے گی۔ رواں ماہ (فروری دوہزاراکیس) میڈیکل اینڈ ڈینٹل کے ’(نئے) تعلیمی سال 2020-21ئ‘ کے لئے داخلوں کا سلسلہ اِختتامی مراحل سے گزر رہا ہے۔ 19 فروری کے روز ’پاکستان میڈیکل کمیشن (پی ایم سی)‘ کی جانب سے متعلقہ اداروں کو مطلع کر دیا گیا ہے کہ وہ نئے تعلیمی سال میں دیئے گئے داخلوں سے متعلق ’پی ایم سی‘ کو یکم مارچ تک آگاہ کریں۔ داخلوں کے سلسلے میں 2 حتمی تاریخیں مقرر کی گئی ہیں۔ سرکاری کالجز میں بائیس فروری جبکہ نجی کالجز میں یکم مارچ تک داخلے نہ لینے والوں کے نام (پی ایم سی قواعد کے تحت) رجسٹرڈ نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاہم دیکھنا یہ ہے کہ یکم مارچ دوہزار اکیس تک نئے تعلیمی سال کے داخلے مکمل ہونے کے بعد سرکاری و نجی میڈیکل کالجز میں دیئے گئے داخلوں کا کتنی سختی اور کتنی سنجیدگی سے احتساب کیا جاتا ہے۔ ماضی میں بھی اِسی قسم کے اعلامیے‘ یاد دہانیاں اور قواعد کی تشریح سے متعلق خطوط (نوٹسیز) جاری یا ارسال کئے جاتے رہے ہیں جو کاغذی کاروائیاں تھیں اور پاکستان میں طب کی تعلیم کا ماضی رہا ہے کہ یہاں داخلے مکمل ہونے کے بعد اُن کی خاطرخواہ سختی سے جانچ پڑتال نہیں کی جاتی۔ اُمید ہے کہ 1962ءمیں قائم ہونے والے ’پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی)‘ کو ختم کر کے سال 2019ءمیں تشکیل دیئے گئے ’پاکستان میڈیکل کمیشن (پی ایم سی)‘ کے دور میں پہلی مرتبہ ہونے والے میڈیکل اینڈ ڈینٹل داخلوں کی سختی سے ’اہلیت (میرٹ)‘ اور دیگر قواعد کی کسوٹی پر جانچ پڑتال کی جائے گی۔