پھولوں کے شہر پشاور میں خود پھولوں کو کچلا جا رہاہے ۔ اگر چہ تعلیمی میدان میں کئی قسم کی اصلاحات متعارف کرائی گئی ہیں تاہم باجود ان کے بعض سرکاری سکولوں میں بچوں کے ساتھ نامناسب رویہ اپنا جاتاہے‘گالیاں دی جاتی ہیں ۔جس کی وجہ سے بعض کو اٹھا کر پرائیویٹ میں ڈال دیا گیا ہے ۔کچھ روز قبل پشاور کے ایک تدریسی ادارے میں دس سال کے تین بچوں کو بیدردی سے کوٹا گیا ۔ان کی پٹائی چار اساتذہ نے باری باری کی ۔ ہوئی ہوگی ان معصوموں سے غلطی مگر اس کا مطلب یہ تو نہیں۔مار پیٹ سے تمیز سکھلائی نہیں جا سکتی ۔ خود تمیز دار بن کر دوسروں کی تربیت کی جا سکتی ہے ۔ مگر اس باریک اور آسان نکتہ سے ہمارے اساتذہ واقف نہیں ہیں۔کیونکہ ہمارے ہاں سکول میں سزا دینے کے خلاف قانون موجود نہیں ہے ۔جب تلک کہ بل پاس ہو اور کوئی قانون بنے۔نجا نے کتنے اور بچے بے درد اساتذہ کی بھینٹ چڑھ جائیں۔تجربہ کہتا ہے کہ اس طرح سکھلانا استاد کی ناکامی تو ہے مگرساتھ طالب علم کی ناکامی بھی ہے ۔ بلکہ سکول میں دست درازی کر کے تعلیم دینا تو کسی کتاب میں نہیں ۔ باہر کے ملکوں میں اس پردہائیوں سے عمل درآمد ہو رہاہے کہ مارنانہیں ۔رگبی سکول کے ڈاکٹر آرنلڈ کا ذکر مسٹرلیٹن سٹریچی کی کتاب ”ایمی ننٹ وکٹورین“ میں ملتا ہے ۔جو ڈنڈے کے استعمال کو جائز سمجھتے تھے۔ وہاں ایک ترقی یافتہ معاشرے کی تشکیل کے لئے جسمانی تشدد کو وہاں کے سکولوں سے اکھاڑ کر باہر گلی میں گندے انڈے کی طرح پھینک دیا گیا۔فضلِ کالج مردان کی شخصیت پرنسپل عبدالعلی خان چھڑی کے استعمال کو کبھی جائز سمجھ لیتے ۔میں نے ان کے انڈر پڑھایا ہے ۔وہ کے پی میں اسلامیہ کالج ، ایچی سن کالج کے پرنسپل ، سیکرٹری ایجوکیشن، وائس چانسلر پشاور او رگومل یونیورسٹی رہے۔ہر چند بچوں کی تربیت کےلئے چھڑی کے استعمال کو اب بھی ہمارے ہاں درست سمجھتے ہیں ۔مگر باہر کی با شعور قومیں ان کے خلاف ہیں ۔خود ہم نے دسویں کلاس پشاور مشن ہائی سکول کوہاٹی دروازہ میں استاد ِ محترم سر آرتھر سے جلدی نہ آنے پر کافی سوٹیاں کھائی ہیں ۔ہائے رونا آتا ہے ۔انھیں چھڑیوں کی برکت ہے کہ آج ہم دو لفظ تو لکھ لیتے ہیں۔مگر سکول میں بچوں پر سزاکے نام پر حد سے زیادہ تشدد جیسے باپ دادا کے قتل کا بدلہ لیا جا رہا ہو درست نہیں۔ اب تو پرائیویٹ اداروں میں یہ چلن عام ہوچکا ہے کہ پڑھائی پیار سے نہ کے مار سے ہو۔گلوکار شہزاد رائے کا ٹرسٹ زندگی اس کے برخلاف ہے ۔وہ سماجی کارکن بھی ہیں۔ان کی کوشش کے تحت اسلام آباد ہائی کورٹ سے حکم نامہ جاری ہوا تھا کہ سکول میں بچوں کی پٹائی درست نہیں۔مگر کون عمل کرتا ہے ۔ہمارے ہاں تو قانون بنتے ہی اسی لئے ہیں کہ ان کو توڑا جائے اور رجھ کر پاش پاش کریں اور کرلیں تو پھر نئے سے توڑا جائے۔اس پر سندھ حکومت نے اپنے قانون میںتبدیلی کردی تھی ۔مگر ڈیڑھ سال ہونے آیا ہے باقی صوبے اس پر توجہ نہیں دیتے ۔قانون میں ایسی شقیںموجود ہیں جو بچے کوسزا دینے کے حق میں ہیں۔مگر قانون بدلنا ہوگا۔ شیریں مزاری انسانی حقوق کی وزیر ہیں ۔انھوں نے قومی اسمبلی میں پچھلے ڈیڑھ سال پہلے سکولوں میں بچوں پر تشدد نہ کرنے کا بل جمع کروایا ہواہے ۔ بازار بہت گرم ہے کہ خفیہ رائے شماری ہو ۔ صدارتی آرڈیننس کے چرچے ہیں ۔مگر اس ضروری مسئلے پر تو کسی کی توجہ ہی نہیں جاتی کہ یہ بل بھی پاس کردیں۔جن بچوں کو پیٹا گیا ان کی کمر کے نیچے استادوں کے چپلوں کے نشانات سرخ دھبو ںکی شکل میں موجودہیں۔ ٹی وی رپورٹ میں اس ظلم پر ایکشن لینے کو کہا گیا ۔مگر کوئی ایکشن نہیں ہوگا۔تنخواہوں کے زیادہ کرنے کو جلوس نکلیں گے۔ مگر اساتذہ اس ناروا سلوک سے ہاتھ پیچھے نہیں کھینچیں گے۔کہتے ہیں یہ ان بچوں کے اخلاق کی درستی کےلئے ضروری تھا۔ جیسے انھوں نے مار کھا کھاکے سیکھا ہے تو جب آگے سکھلائیں وہی طریقہ اپنائیں گے جیسا ان کے ساتھ ہوا۔یہ تو ایک لمبی اور نہ ختم ہونے والی داستان ہے ۔تاہم جن بچوں کے ساتھ یہ سلوک ہوا اگر یہ بچے ان کے اپنی اولاد ہوتے تو وہ کبھی ایسا نہ کرتے۔