میرا خون کا عطیہ۔۔۔

ایک نوکیلی موٹی تین انچ لمبی سوئی جب بازو کی رگ میں اندر دھنسنے لگتی ہے ‘ مجھے اس وقت بجائے اس کے تکلیف ہو ‘ایک عجیب سی راحت محسوس ہوتی ہے مگر یہ پہلی دفعہ تو نہیں ۔ دوچار روز پہلے یہ 136ویںبار تھی‘یہ سفر خاموش سفر ایک اکیلا سفر اس راستے کا جس پر مجھ سے آگے کوئی کبھی گزرا ہی نہیں تاکہ اس کے نقشِ قدم پر چلتا ۔خود اپنے ہی قدمو ں پر چلنا ہے ۔اپنے لئے جینا بھی کوئی جینا ہے‘وہ بھی کیا زندگی جو کسی دوسرے کے کام نہ آسکے۔جس حد تک کوشش ہو کم از کم اتنا تو بندے کو کام آنا چاہئے۔یہی دنیا ہے ۔ وگرنہ اوپروالی دنیا میں تو کوئی کسی کے کام نہیںآئے گاجنھوں نے خون کا عطیہ نہیں دیا ۔وہ کبھی فرصت میں جا کر تھیلی سیمیا کے مریض بچوں کو ہسپتال کے بستر پر خون عطیہ کرنے والوںکا انتظار کرتے ہوئے دیکھ لیں۔ان بچوں کے زرد چہروں کو دیکھ لیں۔ جن کے ماتھے اور گالوں اورہونٹوں پر سے جیسے کسی نے سرخی اور سفیدی نوچ کر وہاںزردی انڈیل دی ہے ۔ان کے جسم کے اندر خون بننے کی صلاحیت ہوتی تو وہ کسی اور کا انتظار کیوں کرتے۔ اگر باہر سے یہ سونا ان کی رگوں میں قطرہ قطرہ نہ انڈیلا جائے توپھر وہ کیسے سانس لے سکیں گے ۔کیا مر نہیں جائیں گے۔اس مرض میں بچوں کے ننھے منے جسم تا زندگی خون نہیں بنا سکتے ۔ پھر آپ اور میں نہیں دیں گے تو اور کون آئے گا جو اس کام کا بیڑہ اٹھائے گا ۔ اس بیماری میں اضافہ ہو رہاہے ۔یہ بیماری کسی کے بچے کو نہ ہو ۔ کوئی کسی کو ایک روپیہ نہیں دیتا ۔پھر کوئی کسی کو خون دے اور وہ بھی خود اپنے جسم سے نکال کر ۔ مگر ایسے ہیں جو یہ خدمت انجام دیتے ہیں ۔ ایک نہیں ہزاروں۔جن کے دم سے رونق ہے۔ مگر کاش خون دینے والے زیادہ سے زیادہ ہوں۔ زیادہ تر عطیات سکول ‘کالج اور یونیورسٹیوں سے آتے ہیں ۔جہاں نوجوانوں کا تازہ خون اس بیماری کے پنجوں میں جکڑے بچوں کوتین ماہ دورانیہ کے لئے نئی زندگی دیتا ہے ۔میں تو بلڈ دینے جا¶ںتو ان بچوں کے مرجھائے چہرے دیکھ کر جی میں آتا ہے کہ بار بار ان کو خون کا عطیہ دوں۔ اکیلے اور سنسان راستوں کی برفانی چوٹی سر ہو جائے۔ جہاں میرے پیچھے آنےوالے تو بہت ہیں مگر مجھ سے آگے چلنے والا کوئی نہیں۔ سو میں نے پیچھے آنے والوں کےلئے راستہ بناکر اوپر جانا ہے ۔میرا یہ سفر 1987ءمیں شروع ہوا تھا جو اب تلک جاری ہے ۔ اگر یہ چوٹی سر کرتے ہوئے کوئی مجھ سے آگے راستے میں نظر آگیا تو اس کے قدموں کے نشانات پر گر پڑوں گا کہ منزل یہی ہوگی ۔میرے قافلے میں جہاں میرے واقف کار دوست یار رشتہ دار تعلق دار اور شاگرد ہیں وہا ںخود میری زوجہ میرے بیٹے بھی اس خیر کی راہوں کے مسافر ہیں۔جو مجھے دیکھ کر اس راستے پر جا رہے ہیں ۔ان تمام کی بھلائی جہاں خون کے ضرورت مند مریضوں کے ساتھ ہے ۔وہاں یہ احسان میرے کاندھوں پر بھی ہے ۔ ایک بار جب میں خون دے رہا تھا تو وہاں ٹی وی ‘نیوز چینل کی ٹیم ریکارڈنگ کے لئے موجود تھی۔ مائیک میرے آگے کیا۔ سوال پوچھا آپ خون دیتے ہیں تو آپ کو کیا محسوس ہوتا ہے۔میں خون دے کر آنکھیں بند کرلیتا ہوں۔ جو خوشی اور طمانیت میری رگوں میں دوڑنے لگتی ہے اس کاتو سرور ہی کچھ اور ہے۔مجھ جیسا کسی کے کام آئے خود میرے لئے حیرت ہے ۔پھر وہ بھی ایک مشکل کام جس سے اکثر وبیشتر لوگ گھبراتے ہیں۔میں 85 بار خون دے چکا تھا ۔مگر کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہونے دی ۔ کسی نے سمجھایا یہ وہ نیکی نہیں جسے چھپا¶ ۔تمھارے چاہنے والے اور ساتھ کالج میں شاگرد متاثر ہوں گے۔ خون کا عطیہ دیں گے ۔ سو اب میں جب خون دے کر آتا ہوں توظاہر کرتا ہوں خاص طور پر فیس بک پر ۔سب دعائیں دیتے ہیں ۔مگرایک صاحب نے صاف کہہ دیا ریاکاری سے کام مت لو۔