طب کی تعلیم میں نجی اِداروں کی دلچسپی خوش آئند ہے تاہم اِس ”سرمایہ کاری میں اضافہ“ ہونا چاہئے کیونکہ پوری دنیا میں ”پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ‘ ‘کے اصول پر نہ صرف درس و تدریس بلکہ تحقیق کے شعبوں کو وسعت دی جاتی ہے لیکن نجی اِداروں کی ”اجارہ داری میں کمی“ ہونی چاہئے کیونکہ جہاں کہیں بھی پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے اصولوں پر ادارے قائم کئے جاتے ہیں‘ اُن کی نگرانی اور خدمات کے معیار پر سمجھوتہ نہیں کیا جاتا‘ منتظم و نگران حکومتی ادارے قواعد کا بلاامتیاز اور سخت گیر اطلاق کرتے ہیں اور صرف مالی امور ہی میں نہیں بلکہ نجی اِداروں میں طلبہ کی کردار سازی‘ اُنہیں نظم و ضبط کا پابند بنانے اور اُنہیں نصابی و ہم نصابی سرگرمیوں میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے لئے تیار‘ آمادہ و فعال رکھا جاتا ہے۔ حکومتی کوشش و تعاون کے ساتھ بنیادی مقصد یہی ہوتا ہے کہ کاروباری طبقات عوام کا استحصال نہ کریں اور ایک طرح کا توازن قائم رہے جس میں نجی سرمایہ کار حکومت اور حکومت نجی سرمایہ کاروں کی دلچسپی و تجربات سے فائدہ اُٹھائیں لیکن پاکستان کی صورتحال یہ ہے کہ یہاں تعلیم کے شعبے میں بالعموم اور طبی تعلیم کے شعبے میں بالخصوص سرمایہ کاری کرنے والوں کو میڈیکل اور ڈینٹل کالجز بنانے کی اجازت تو دیدی گئی ہے اور اُن کے کام کاج پر نظر رکھنے کے لئے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے کئی ایک ادارے بھی موجود ہیں لیکن وہ عام آدمی کا اِستحصال کر رہے ہیں۔ اِسی سے متعلق ایک تمہیدی نکتہ¿ نظر ”چور دروازے (تاریخ اشاعت اکیس فروری)“ کے زیرعنوان جس عمومی صورتحال کا ذکر کیا گیا اُس کا تاریک پہلو یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے قواعد کا سخت گیر اطلاق کرنے کی بجائے شک کا فائدہ ہمیشہ نجی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالجز کو دیا جاتا ہے ‘طلبہ اور متعلقہ والدین کی شکایات یہاں درج کی جاتی ہیں اور چند مہینے کے بعد طلبہ اور والدین بددعائیں دیکر خاموش ہو جاتے ہیں۔ یوں استحصال حسب سابق و معمول جاری رہتا ہے تاہم اِس پوری صورتحال میں ارتعاش ایک ایسے کنکر پھینکنے سے پیدا ہوا ہے جس کے باعث خیبرپختونخوا کے اُن تمام نجی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالجز کو تشویش ہونی چاہئے جنہوں نے تعلیمی سال 2020-21ءکے لئے داخلے دیئے ہیں ‘ذہن نشین رہے کہ ’پاکستان میڈیکل کمیشن‘ نے داخلوں کے لئے ترجیحی فہرست جاری کرتے ہوئے نجی کالجز کو ”20 نمبر“ دینے کا اختیار دیا گیا تھا جنہیں حتمی میرٹ لسٹ کا حصہ بناتے ہوئے داخلے دیئے گئے اور یہ پورا داخلہ عمل ہی مشکوک ہو چکا ہے کیونکہ نجی میڈیکل کالج کے فیصلہ ساز اور ایک طالب علم کے درمیان ہوئی بات چیت کی آڈیو منظرعام پر آئی ہے جس میں وہ طالب علم ایک معروف نجی میڈیکل کالج کے مالک سے بات چیت کرتا ہے اور وہ مالک اُس سے بار بار ”45 لاکھ روپے عطیہ “ طلب کرتا ہے جس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ اُس کے نمبر بہت کم ہیں اور وہ طب کی تعلیم حاصل کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا لیکن اگر سالانہ کالج فیس (قریب پندرہ لاکھ روپے) کے علاوہ پینتالیس لاکھ روپے بطور عطیہ ادا کر دے تو اُسے داخلہ مل سکتا ہے۔ ڈیڑھ منٹ سے کچھ زائد دورانئے کی یہ ’آڈیو فون کال‘ سوشل میڈیا پر جاری ہونے کے بعد وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان نے اِس کا نوٹس لیا ‘وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا نے صوبائی محکمہ¿ صحت کو مذکورہ فون کال کی آڈیو ویڈیو ریکارڈنگ اور نجی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالجز کی جانب سے بھاری عطیات وصول کرنے کے مبینہ معاملے کا نوٹس لینے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ ”صرف مذکورہ آڈیو ویڈیو کال ہی کی تفتیش نہ کی جائے بلکہ اِس کے متعلق عوام کی دیگر اور جملہ عمومی شکایات کو بھی سُنا جائے ‘اُمید کی کرن ضرور پیدا ہوئی ہے صوبے کے منتظم (چیف ایگزیکٹو) کی جانب سے نوٹس لئے جانے کے بعد اِس پوری کہانی کا کوئی نہ کوئی منطقی انجام ضرور سامنے آئے گا جس سے طب کی تعلیم اُور نجی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالجوں کا مستقبل بھی جڑا ہوا ہے۔ حکومت کے پاس اِس بات کا آئینی اختیار موجود ہے کہ اگر کوئی نجی میڈیکل یا ڈینٹل کالج قواعد کی خلاف ورزی کرے‘ تو اُسے حاصل اجازت نامہ منسوخ کرتے ہوئے متعلقہ کالج کا نظم و نسق حکومت سنبھال لے ۔شکایت یہ بھی ہے کہ نجی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالجز یکمشت پانچ اور چار سال کی فیس بھی طلب کرتے ہیں۔ میڈیکل کی پانچ سالہ تعلیم پر کل 75 لاکھ جبکہ ڈینٹل کی چار سالہ تعلیم کے لئے مجموعی طور پر ساٹھ لاکھ روپے درکار ہوتے ہیں جبکہ ایسا کرنا پاکستان میڈیکل کمیشن‘ خیبر میڈیکل یونیورسٹی اُور ہائر ایجوکیشن کمیشن کے مرتب کردہ ’داخلہ قواعد و ضوابط‘ کی خلاف ورزی ہیں اور اِس کی وضاحت محکمہ صحت خیبرپختونخوا کی جانب سے جاری ہونے والے ایک اعلامیہ (بتاریخ اُنیس فروری) میں کیا گیا ہے ۔ لائق توجہ ہے کہ عوامی شکایات کا نوٹس ایک ایسے وقت میں لیاگیا ہے جبکہ یہ نجی اِدارے اپنے ہاں داخلوں کو حتمی شکل دے چکے ہیں اور پاکستان میڈیکل کمیشن کی جانب سے نجی کالجز کو یکم مارچ جبکہ سرکاری کالجز کو بائیس فروری تک نئے طلبہ کے نام برائے رجسٹریشن داخل دفتر کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ایک طرف تو نگران ادارے نے نجی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالجز کو ”20 نمبر“ دینے جیسا اختیار دیا ہے جس میں کمی بیشی کا اثر ’میرٹ لسٹ‘ پر پڑ سکتا ہے اور دوسری طرف حکومت یہ خواہش بھی رکھتی ہے کہ نجی میڈیکل و ڈینٹل کالجز اِن بیس نمبروں کا غلط استعمال نہ کریں۔ دونوں فریق اپنی اپنی جگہ جس سادگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں‘ جو جان لیوا ہے‘ قاتل ہے کیونکہ اِس سے طلبہ کی اہلیت‘ انصاف اُور حقوق کا خون ہو رہا ہے۔