بادِ نوبہار


 ابھی کچھ دنو ں میں تیز ہوائیں چلنا شروع ہو جائیں گی۔ کیونکہ موسمِ بہار کا آغاز ہوچکا ہے۔ درختوں کی خال مخال ٹہنیوں پر بُور آنے لگا ہے۔ ایک ایک شاخ سر سبزی کو رواں دواں ہے۔امید ہے جلد درخت ہرے ہو جائینگے۔ ہواؤں کا چلن تیز تر ہو جائے گا۔ دلوں کو بے نام سی راحت محسوس ہوگی۔ ہوا کے جھونکے گالوں کو تھپتھپائیں گے۔ہواؤں کی سرگوشیوں اور سرسراہٹ میں بیماریو ں کیلئے بھی شفا کی نوید سماعت پر دستک دینے لگے گی۔ کیاریاں پھولوں سے ڈھک جائیں گی۔ ان کے سرخ سفید نیلے پیلے اودھے اودھے پیرہن ہوں گے۔خزاں کو شکست سے دوچار ہونا ہوگا۔ کیونکہ یہاں کے موسموں کا دستور یہی ہے۔ خزاں کب تک درختوں کو بے ثمر رکھے گی۔ پتنگیں اُڑیں گی تتلیاں پھولوں کی قربت حاصل کرنے کو باغ میں آئیں گی۔بلبل روٹھے محبوب کو منانے پھول کے پاس آ کرسرِ شاخ براجمان ہوں گے۔ جانے کب سے پھول کی بلبل کے سا تھ بات نہیں۔”کیا ایسے کم سخن سے کوئی گفتگو کر ے۔جو مستقل سکوت سے دل کو لہو کرے“ (فراز)۔کسی بات پر گل نے بلبل سے بات کرنا ترک کر دیا تھا۔ وہ دن اور آج کا دن ان میں رسم و راہ نہیں۔پھول کو تو آہ نہیں۔مگر بلبل کی آواز کو کیسے ممکن ہے  واہ نہیں۔اس کی آواز میں وہ درد ہے کہ ٹھنڈے پانی میں دیپک راگ سے آگ لگا دے۔”دیپک راگ ہے چاہت اپنی کاہے سنائیں تمہیں۔ ہم تو سلگتے ہی رہتے ہیں کیوں سلگائیں تمہیں“۔کیونکہ بلبل گیت گا کر اپنی سریلی آواز میں محبوب کی رضامندی حاصل کرناچاہتاہے۔ مگر اس کی شنوائی نہیں ہوتی۔ مگر کون ہوگا جو سکوتِ لالہ  ئ گل سے کلام پیدا کرے۔”فرصت سے سن شگفتگی ئ غنچہ کی صدا۔ یہ وہ سخن نہیں جو کسی نے کہا بھی ہو“(ناصر کاظمی)۔”ہم ذوقِ سماعت سے ہیں محروم وگرنہ۔ ہر قطرہ ئ شبم میں دھڑکنے کی صدا ہے“ (رضا ہمدانی)۔ صبا اس موسم میں اپنی آب و ہوا کے جھولے میں کلیوں کی جھولا جھلائے گی۔انھیں گدگدائے گی۔ یہ ہنسیں گی۔ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہو جائیں گی۔ پھول  بن جائیں گی۔گلشن کا کاروبار چلے گا۔ بادِ نوبہار چلے گی۔ مصطفی زیدی کا شعر یاد آئے گا”تتلیاں اڑتی ہیں اور ان کو پکڑنے والے۔ سعی ئ ناکام میں اپنوں سے بچھڑ جاتے ہیں“۔مگر دور سے کہیں ناصر کاظمی کی موہوم سی صدا بھی ابھرے گی ”بیٹھ کر سایہ ئ  گل میں ناصر۔ہم بہت روئے وہ جب یاد آیا“۔پھر تو دل کی دھڑکن کی وجوہات معلوم ہونا شروع ہو جائیں گی”دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا۔ وہ تیری یاد تھی اب یاد آیا“۔کہیں سے احمد ندیم قاسمی کی آواز کی مدھرتا کانوں میں رس گھولے گی۔سماعت کو سہلائے گی دل کو ٹکور دے گی ”انداز ہو بہو تیری آوازِ پا کا تھا۔ باہر نکل کے دیکھا تو جھونکا ہوا کا تھا“۔پھر یہ بھی کہ ”فاصلہ قرب بنا قرب بھی ایسا کہ مجھے۔ دل کی دھڑکن تیرے قدموں کی صدا لگتی ہے“۔  وہاں سے ماضی کے دریچے کھل جائیں گے میر تقی میر اور غالب،درد، مومن اپنے اپنے لہجے میں گویا ہوں گے۔بہار کے دن تو ارمانوں کے پورا ہونے اور نئے ارمانوں کی نمو یابی کے دن ہیں۔کوئی خوش ہوگا تو ضروری نہیں کہ دوسرا بھی شاداں ہو۔ تیسرا رنجور بھی ہو سکتا ہے۔کلیاں کھلی ہوں تو شاید اس کے دل کی کلی یونہی پژمردہ ہو کملائی ہو۔چاروں او ربہار آئی ہو مگر وہ بلبل کی طرح اُداس بیٹھا ہو۔ سوچتا ہوں کہ بہار سر پہ آئی ہے۔مگر میں قفس کا زندانی ہوں۔ میرے سجن بیلی باہر کی آزاد ہواؤں جھومتے گاتے ہیں اور میں یہاں صیاد کی قید میں زبوں حالی کے دن گذار رہاہوں۔اُڑتے ہوئے پنچھی اس کی خبر گیری کو آئیں گے۔ مگر پنجرے کے اوپر منڈلا کر چلے جائیں گے۔ وہ قید پرندے اپنے  پنچھیوں سے کہیں گے ”قفس اُداس ہے یارو صبا سے کچھ تو کہو۔ کہیں تو بہرِ خدا آج ذکرِ یار چلے“۔مگر”پھر وہی کنجِ قفس پھر وہی صیاد کا گھر“۔پرندے آکر پنچھی کو خبر دینے کی کوشش کریں گے۔مگر کہنا چاہیں تو نہ کہہ سکیں گے۔مرزا غالب کی خوبصورت آواز پرندے کو مل جائے گی۔ وہ جو خبر دیتے ہوئے ہچکچا رہا ہواس آزاد پرندے کو  قیدی کہے گا”قفس میں مجھ سے رودادِ چمن کہتے ہوئے مت ڈر۔گری تھی جس پہ کل بجلی وہ میرا آشیاں کیوں ہو“۔ایسے میں بہار کا بادل برسے گا اور بارش کے قطروں کی ٹپ ٹپ اور گھر کے پچھواڑے گذرتی ہوئی سینکڑوں میل دور تک جاتی مگر آپس میں نہ ملتی ہوئی دو پٹریوں پر ریل گاڑی کی چھک چھک  میں یہ صدا ابھرے گی جس کو ناصر کہتا پھرے گا”رنگ برسات نے بھرے کچھ تو۔ زخم دل کے ہوئے ہرے کچھ تو“۔