سو شل میڈ یا پر شہزادہ سراج الملک نے ایک مصدقہ خبر لگا ئی ہے کہ مو سمیا تی تبد یلی ، گلیشیر پگھلنے اور دیگر وجو ہات سے رونما ہونےوالے سیلابوںکی روک تھا م کےلئے وفاقی حکومت نے گلگت بلتستان کو تین بڑے گیس پلا نٹ دینے کا حکمنا مہ جاری کیا ہے یہ پلا نٹ 2016ءمیں چترال کےلئے منظور کئے گئے تھے 2018ءمیں یہ پلا نٹ لا ہور پہنچا ئے گئے انتخا بات کی وجہ سے ان کو چترال پہنچا نا ممکن نہیں ہوا اب گلگت کو ان کی ضرورت پڑ گئی ہے لا ہور سے براستہ چکدرہ چترال لے جا نے کی جگہ ان کو براستہ مانسہرہ بیشام سیدھا گلگت لے جا یا جا ئے گا کا بینہ کی اقتصا دی رابطہ کمیٹی نے اس ضمن میں فیصلہ کرتے ہوئے تین وجو ہات کا بطور خاص ذکر کیا پہلی وجہ یہ ہے کہ گلگت بلتستان میں گلیشیر پگھلنے سے سیلا ب آرہے ہیں دوسری وجہ یہ ہے کہ درخت کا ٹنے اور جلا نے کی وجہ سے پہاڑ ننگے ہورہے ہیں تیسری وجہ یہ ہے کہ گیس دستیاب ہونے کے بعد جنگلات پر عوام کا دباﺅ کم ہو گا درخت محفوظ ہو نگے اس لئے چترال کا منصوبہ منسوخ کر کے تینوں گیس پلا نٹ گلگت منتقل کئے جائیں سو شل میڈیا پر چترالی عوام سے پر زور احتجاج کی اپیل کی جا رہی ہے ان لو گوں کو 5ستمبر 1977کا بڑا فیصلہ یا د آرہا ہے جنرل ضیاءالحق نے حکومت سنبھا لنے کے ایک ما ہ بعد لواری ٹنل کی فائل منگوائی اور ٹنل کے منصو بے کو ختم کر کے فنڈ کسی منا سب سکیم کو دینے کا حکم دیا اگلے 2مہینوں میں بھاری مشینری آئی لواری ٹنل کے دہا نے پر لوہے کی جا لیاں لگیں اور کا م بند کر دیا گیا مشینری کو واپس لے جا نے میں پورے دو مہینے لگ گئے جنرل ضیا ءالحق کے اس فیصلے کے خلا ف کسی نے عدالت سے رجو ع نہیں کیا کسی نے جلسہ نہیں کیا کسی نے جلو س نہیں نکا لا ، کوئی شور شرابہ نہیں ہوا ، زندہ باد اور مر دہ باد کے نعرے نہیں لگا ئے گئے کسی نے دھر نا نہیں دیا کسی نے بھوک ہڑ تال نہیں کی چنا نچہ منصو بہ نہا یت آرام کے ساتھ بند ہوا ، چترال کے لو گوں نے 2005ءتک 28سالوں تک خامو ش رہ کر انتظار کیا 2005ءمیں جنرل مشرف اور جنرل افتخا ر حسین شاہ نے لواری ٹنل پر دوبارہ کام شروع کیا چترال دوستی کام آئی اگر مشرف کی جگہ کوئی اور ہوتا تو 2005ءمیں بھی لواری ٹنل پر کام شروع نہ ہوتا‘یہ ما ضی قریب کا تلخ تجربہ ہے اس وجہ سے سو شل میڈیا پر مزا حمتی تحریک کی ضرورت پر زور دیا جا رہا ہے اگر اسی مسئلے پر کسی نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا یا تو اس کےلئے دو بڑے قوانین کا سہا را لیا جا سکتا ہے ایک قانون یہ ہے کہ ملک کے خزانے پر عوام کا حق ہے ‘ دوسرا قانون یہ ہے کہ کسی منصو بے پر اگر سر کاری وسائل خر چ ہوچکے ہوں کروڑوں روپے کی زمین خریدی گئی ہو کروڑوں روپے کی مشینری لائی گئی ہو تواُس منصوبے کو منسوخ یا ختم کرنے سے قومی خزانے کا نقصان ہوتا ہے تر قی کا عمل رک جا تا ہے اور کسی کو ایسا کرنےکاا ختیار حا صل نہیں ہے اگر سول سوسائٹی یا سیا سی تنظیموں نے اس فیصلے کےخلاف مزاحمتی تحریک چلا ئی تو ان کے پاس عوام کو متحر ک کرنے کےلئے کئی اہم نکات ہیں، اولین نکتہ یہ ہے کہ مو سمیاتی تغیراور گلیشر پگھلنے کا سب سے زیا دہ خطرہ ضلع چترال کو درپیش ہے ماہرین کے اندازے کے مطابق ضلع چترال کا 13فیصد رقبہ گلیشیر سے ڈھکا ہوا ہے ان گلیشیر کی کل تعداد 542ہے ان میں سے 125گلیشیر پگھلنے کے عمل سے گذر رہے ہیں گذشتہ 20سا لوں میں 6گلیشیر پگھل چکے ہیں اور گلوف (GLOF) کی وجہ سے بڑے بڑے سیلاب آئے ہیں جن میں جانی اور ما لی نقصان ہوا ہے مزید 18گلیشیر ایسے ہیں جن کو اگلے 20سالوں کے لئے خطر ناک قرار دیا گیا ہے دوسراا نکتہ یہ ہے کہ چترال میں جلا نے کے لئے ہر سال شا ہ بلوط کی 80ہزار ٹن لکڑی استعمال ہوتی ہے جبکہ 60ہزار ٹن دیگر لکڑیاں جلا ئی جا تی ہیں گیس پلا نٹ کی تنصیب کے بعد اس ضلع میں 40ہزار ٹن لکڑی سا لانہ بچا نے کا منصوبہ تھا جس کو تکمیل تک پہنچانا ضروری ہے۔