الیکشن کمیشن آف پاکستان نے عدالت عظمیٰ (سپریم کورٹ) کو مطلع کیا ہے کہ سینیٹ انتخابات میں رائے شماری (ووٹنگ) کا عمل خفیہ طریقے ہی سے آئینی اقدام ہوگا الیکشن کمیشن آئین کی تشریح کا ادارہ نہیں لیکن اُس کی رائے اہمیت رکھتی ہے جس کی روشنی میں عدالت عظمیٰ کسی نتیجے پر پہنچے گی تاہم گیارہ مارچ (سینیٹ انتخابات میں ووٹنگ) کے دن تک بہت وقت ہے اور محاورہ ہے کہ اُس آفت سے نہیں ڈرنا چاہئے جس کے ظہور میں ایک رات کا وقفہ ہو اور اُس آفت کو معمولی بھی نہیں سمجھنا چاہئے جو نازل ہو چکی ہو اور وہ آفت انتخابات سے متعلق شکوک و شبہات ہیں جو حالیہ ضمنی انتخابات میں ایک مرتبہ پھر سامنے آئے ہیں جن کی قطعی توقع نہیں۔ لمحہ¿ فکریہ ہے کہ این اے 75 (ڈسکہ) کے ضمنی انتخابات کے 20 حلقوں کے پریزائڈنگ افسر نتائج سمیت غائب ہو گئے اور کہا جاتا ہے کہ شدید دھند کے باعث وہ راستہ بھول گئے۔ بہرحال حقیقت جو بھی ہو لیکن دھند کی وجہ سے جو انتخابی نتائج مشکوک ہوئے ہیں اُس کی وجہ سے کسی دوسرے ادارے کی نہیں بلکہ الیکشن کمیشن کی ساکھ متاثر ہوئی ہے تاہم الیکشن کمیشن سویا نہیں رہا بلکہ رات کے تین بجے چیف الیکشن کمشنر نے ڈسکہ سے آنے والی اطلاعات کا نوٹس لیا۔ چیف سیکرٹری اور دیگر سوئے ہوئے اداروں کو جگایا گیا۔ اطلاعات و معلومات اکٹھی کی گئیں اور این اے 75 کے من پسند نتائج حاصل کرنے کی کوشش روک دی گئی۔ خوش آئند ہے کہ پاکستان میں الیکشن کمیشن کی موجودگی ایک بہت ہی طویل عرصے کے بعد ثابت ہوئی ہے اور اِس کامیابی کا سہرا چیف الیکشن کمشنر کے سر ہے جنہوں نے اپنے اختیارات کا استعمال کیا۔ الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ میں اتنی زیادہ ہلچل ہے اور وہاں سے آنے والی خبریں اِس قدر زیادہ اور اہم ہیں کہ کسی ایک خبر پر اکتفا ممکن نہیں۔ رواں ہفتے ہی جب فاضل جج قاضی فائز عیسیٰ کو چیف جسٹس نے وزیراعظم کے ترقیاتی فنڈز کے استعمال کے فیصلے سے الگ کیا تو عدالتی تاریخ میں اِس سے قبل ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ جب ایک جمہوری دور میں ایسا کیا گیا ہو۔ کسی فاضل جج کا خاموشی اختیار نہ کرنا اور الیکشن کمیشن کا سکوت توڑنا دو ایسے الگ الگ واقعات ہیں جن سے پاکستان کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اِضافہ ہوا ہے اور دھند میں کمی ہوئی ہے۔ یہ پے در پے واقعات اس وقت میں ہوئے ہیں جب ایک طرف سینیٹ انتخابات اہمیت اختیار کر چکے ہیں اور دوسری جوڑ توڑ کی سیاست کے بے تاج بادشاہ آصف علی زرداری نے سینیٹ انتخابات کی اہم سیٹ پر حفیظ شیخ کے مقابل یوسف رضا گیلانی کو کھڑا کر کے ایک اہم پتہ بھی کھیل دیا ہے۔ سینیٹ انتخابات میں تمام انتخاب ایک طرف اور اسلام آباد کی جنرل نشست کا انتخاب دوسری طرف۔ حالات اور واقعات بتا رہے ہیں کہ سرکاری مشینری اس وقت اس انتخاب کے معاملے میں غیرجانبدار دکھائی دے رہی ہے‘ یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت شاید پہلی مرتبہ سیاست کی چکی پر کوشش کے دانے پیس رہی ہے۔ اطلاعات اور شواہد ہیں کہ تاحال کسی بھی حکومتی اور اپوزیشن رکن کو کسی نامعلوم نمبر سے کال موصول نہیں ہوئی یہی وجہ ہے کہ یوسف رضا گیلانی نہ صرف شمالی پنجاب بلکہ خیبر پختونخوا میں بھی اراکین اسمبلی سے رابطے میں ہیں اور پراُمید ہیں۔ ممکن ہے کہ اس صورتحال میں پیپلزپارٹی کی قیادت ’خاموش اکثریت‘ کےلئے نرم گوشہ پیدا کر لے کیونکہ تبصرے زیرگردش ہیں کہ حکومتی اراکین میں سے چند اگلے انتخابات میں پیپلزپارٹی اور نواز لیگ سے صرف انتخابی ٹکٹس کے وعدے پر ہی راضی ہو سکتے ہیں۔ نواز لیگ کی ایک اہم شخصیت نے تجویز دی ہے کہ اوپن ووٹ دینے والوں کو ڈی سیٹ کئے جانے کی صورت پی ڈی ایم ان کے مد مقابل کوئی امیدوار کھڑا نہ کرے۔ پاکستان پیپلز پارٹی اس پوری صورتحال میں پھونک پھونک کر قدم رکھ رہی ہے اسی لئے نہ صرف یوسف رضا گیلانی کو اہم ذمہ داری سونپی گئی ہے بلکہ چیئرمین سینیٹ عدم اعتماد کی صورت میں پیپلزپارٹی اور نواز لیگ کے مشترکہ لائحہ عمل کی تیاری بھی کی جا رہی ہے۔ ماضی کے تجربات کے برعکس یوسف رضا گیلانی اس بار مریم نواز کے ساتھ شہباز شریف کو بھی اعتماد میں لے رہے ہیں اور جلد جیل میں شہباز شریف سے ملاقات کریں گے تاکہ نواز لیگی قیادت پر مشتمل کرداروں کا اعتماد حاصل کیا جا سکے۔