اپوزیشن او رعوامی توقعات۔۔

گزشتہ جمعتہ المبارک کے روز قومی اسمبلی کی دو نشستوں این اے 75 ڈسکہ اور این اے 45 کرم سمیت صوبائی اسمبلی کے دو حلقوں پی پی 51 وزیرآبادور پی کے 63 نوشہرہ میں ہونے والے ضمنی انتخابات کے غیرسرکاری نتائج کے مطابق 4 میں سے 3 حلقوں پر مسلم لیگ (ن) فاتح بن کر سامنے آئی ہے۔سال 2018 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن) نے این اے 75 اور پی پی 51 کی نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی اور گزشتہ شب آنے والے غیرسرکاری نتائج کے مطابق پارٹی سخت مقابلے کے بعد ان دونوں نشستوں پر اپنی جیت برقرار رکھنے میں کامیاب رہی ہے۔تاہم پی کے 63 نوشہرہ سے مسلم لیگ (ن) کی فتح جہاں پی ٹی آئی کےلئے کئی حوالوں سے ایک بڑا دھچکا ثابت ہوئی ہے۔ واضح رہے کہ پی کے 63نوشہرہ کی نشست پر حالیہ ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ (ن) کے امیدوار اختیار ولی نے 21 ہزار ووٹ حاصل کرکے فتح حاصل کی ہے، ان کے مقابلے میں پی ٹی آئی کے میاں محمد عمر کاکا خیل 17 ہزار ووٹوں کے ساتھ رنراپ رہے ہیں جبکہ تیسرے نمبر پر چار ہزار ووٹوں کے ساتھ عوامی نیشنل پارٹی کے امیدوار میاں وجاہت اللہ رہے ہیں۔مذکورہ نشست پی ٹی آئی کے صوبائی وزیر ایکسائیز اینڈ ٹیکسیشن اورپی ٹی آئی کے موجودہ امیدوار عمر کاکا خیل کے والد میاں جمشید الدین کی موت کے بعد خالی ہوئی تھی۔اس نشست کے متعلق کہا جارہا تھا کہ پی ٹی آئی یہ نشست آسانی سے جیت جائے گی کیونکہ پی ٹی آئی پچھلے دوانتخابات میں یہاں سے ناقابل شکست رہی تھی لیکن نتائج برعکس آئے۔علاوہ ازیں این اے 45 کرم میں19فروری کوہونے والے ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی کے امیدوارفخر زمان کی کامیابی کے نتیجے میں پی ٹی آئی خیبرپختونخوا کی حد تک اپنا بھرم کچھ نہ کچھ برقرار رکھنے میں کامیاب ہوگئی ہے کیونکہ پنجاب کی دونشستوں پی پی 51وزیرآبادپر مسلم لیگ(ن) کی کامیابی اور این اے75ڈسکہ پر مسلم لیگ(ن) کی واضح برتری نیز بلوچستان کی نشست پی بی 20پشین جمعیت(ف) اور سندھ کی دوصوبائی نشستوں پر پیپلز پارٹی کی پے درپے کامیابیاںہوا کارخ بدلنے کااشارہ دے رہی تھیں۔یادرہے کہ این اے45کرم میں اصل مقابلہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے امیدوار ملک جمیل خان، پی ٹی آئی کے فخر زمان اور آزاد امیدوار بابا کرم کے درمیان تھا اور جمعیت(ف)اس نشست پرکامیابی کے حوالے سے کافی پرامید نظر آ رہی تھی جس کی وجہ اس نشست سے ماضی میں منیراورکزئی کی مسلسل تین مرتبہ کامیابی تھی جو2018کے جنرل انتخابات میں یہاں سے جمعیت(ف)کے نہ صرف امیدوار تھے بلکہ وہ یہ نشست واضح اکثریت سے جیتنے میں کامیاب بھی ہو گئے تھے ۔ پی کے 63نوشہرہ پر پی ٹی آئی کی شکست پر گفتگو کرتے ہوئے ہم اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرسکتے کہ یہاںضمنی انتخابات سے قبل پی ٹی آئی کے مابین واضح اختلافات پیدا ہوگئے تھے اور یہی اختلافات یہاں پر پی ٹی آئی کی شکست کا بنیادی سبب بنے ہیں۔ دوسری جانب بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ پی ڈی ایم کا اتحاد بھی پی ٹی آئی شکست کی ایک اہم وجہ ہے کیونکہ ایک جانب اگر عوامی نیشنل پارٹی نے پی کے63اور این اے45پر اپنے امیدوار کھڑے بھی کئے لیکن دوسری جانب پی ڈی ایم میں شامل دوبڑی جماعتوں جمعیت (ف) اور پی پی پی نے پی کے 63اور مسلم لیگ(ن) نے این اے45پر اپنے امیدوار کھڑے نہ کر کے پی ڈی اےم کے امیدواران کوسپورٹ کرنے میں کلیدی کرداراداکیا ہے۔ اسی طرح سندھ اور بلوچستان کے بعدپنجاب اور خیبرپختونخوا کے حالیہ ضمنی انتخابات میں پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں مسلم لیگ(ن)، پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام کے امیدواروں کی حکمران جماعت پی ٹی آئی کے مقابلے میں کامیابی کودیکھتے ہوئے یہ کہنا مشکل نہیں کہ سیاست میںہمہ وقت پھونک پھونک کر قدم رکھنا پڑتا ہے۔ اس وقت ضرورت ہے کہ معیشت اور داخلہ و خارجہ پالیسیوں سمیت تمام شعبہ ہائے زندگی میں ترقی کےلئے ٹھوس حکمت عملی مرتب کرنے پر سنجیدگی سے توجہ دی جائے بصورت دیگر عوام کاملک کے مروجہ انتخابی نظام سے اعتمادکا اٹھناایک فطری امر کہلائے گا جس زیادہ تر نقصان سیاسی جماعتوں کو ہی ہوگا۔