پاکستان اور افغانستان کی کرکٹ ٹیموں کے درمیان دوہزارتیرہ میں شارجہ گراو¿نڈمیں ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل کھیلا گیا جو پاکستان نے باآسانی جیتا لیکن اِس میچ کی خاص بات یہ تھی کہ اِس سے دونوں ممالک کے درمیان کرکٹ تعلقات کو ایک نئی جہت ملی اور افغانستان کے کرکٹرز نے پاکستان سپر لیگ میں کھیلنے کے لئے اپنی رضامندی بصورت رجسٹریشن ظاہر کی اور یوں یہ سلسلہ جاری ہوا لیکن افغان کھلاڑیوں کی خواہش کے برعکس اُنہیں پاکستان سپر لیگ میں کھیلنے کی اجازت (این او سی) نہیں تاہم پاکستان کی کرکٹ انتظامیہ افغان کرکٹرز سے رابطے میں رہی اور رواں چھٹے سیزن مقابلوں میں جب افغان کرکٹرز کو پی ایس ایل میں شرکت کی تحریری اجازت ملی تو اُنہیں بلاتاخیر شامل کر لیا گیا۔افغانستان کرکٹ بورڈ نے جون دوہزارسترہ میں کابل بم دھماکہ کے بعد پاکستان سے کرکٹ روابط منقطع کرنے کا اعلان کیا تھا اور اس کی وجہ یہ بیان کی گئی تھی کہ پاکستان دہشت گردوں کو مبینہ طور پر تحفظ فراہم کررہا ہے۔ یہ اعلان ایسے وقت کیا گیا جب دونوں حکومتیں کابل اور لاہور میں دوستانہ میچ کھیلنے پر اتفاق کر چکی تھیں۔ نومبر دوہزاربیس میں پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے دورہ کابل کے موقع پر افغان کرکٹ ٹیم سے بھی ملاقات کی اور انہیں ٹیم کے کھلاڑیوں کے دستخط والا بلاپیش کیا گیا تھا۔ پی ایس ایل‘ چھٹے ایڈیشن میں افغانستان کے پانچ کرکٹرز کی موجودگی غیرمعمولی ہے‘ جس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ماضی میں افغانستان کے صرف ایک کرکٹر (نبی) ہی پی ایس ایل کھیل پائے تھے اگرچہ افغانستان کے یہ پانچوں کرکٹرز پاکستان سپر لیگ کے تمام میچوں کے لئے دستیاب نہیں ہوں گے لیکن چونکہ یہ کرکٹرز اس وقت ٹی ٹوئنٹی مقابلوں میں غیرمعمولی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں لہٰذا شائقین بے صبری سے انہیں کھیلتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان کھلاڑیوں میں سب سے زیادہ توجہ کا مرکز راشد خان ہیں جو عصرحاضر کے بہترین لیگ سپنر کے طور پر اپنی دھاک بٹھا چکے ہیں۔ راشد خان نے زندگی کا کچھ حصہ پشاور میں بھی گزارا ہے۔ راشد خان جو کبھی راشد ارمان ہوا کرتے تھے۔ اسلامیہ کالج میں کمپیوٹر سائنس کے طالبعلم رہے ہیں اور فی الوقت لاہور قلندرز کی نمائندگی کر رہے ہیں تاہم وہ پورے ٹورنامنٹ کے لئے دستیاب نہیں ہوں گے اور اس کی وجہ افغانستان اور زمبابوے کے درمیان ہونے والی سیریز ہے۔ راشد خان ٹی ٹوئنٹی کی عالمی رینکنگ میں پہلے نمبر پر ہیں۔ آئی سی سی کی جانب سے وہ دہائی کے بہترین ٹی ٹوئنٹی کرکٹر بھی قرار پائے ہیں۔ انہوں نے گزشتہ سال آئی پی ایل میں بیس وکٹیں حاصل کی تھیں جبکہ بگ بیش میں وہ سولہ وکٹیں حاصل کرنے میں کامیاب رہے تھے۔ اتفاق سے ٹی ٹوئنٹی عالمی درجہ بندی میں بہترین تینوں بولرز (راشد خان‘ حارث رو¿ف اور شاہین آفریدی) ایک ہی ٹیم یعنی لاہور قلندرز کا حصہ ہیں۔پی ایس ایل کھیلنے والے دوسرے افغان کھلاڑی مجیب الرحمن اُنیس برس کے آف سپنر ہیں جن کی خدمات پشاور زلمی نے حاصل کی ہیں۔ گزشتہ سال انہوں نے ٹی ٹوئنٹی مقابلوں میں سینتیس وکٹیں حاصل کی تھیں جن میں پندرہ رنز دیکر پانچ وکٹوں کی کارکردگی قابل ذکر تھی جو انہوں نے بگ بیش میں ہوبارٹ ہریکینز کے خلاف برسبین ہیٹ کی طرف سے دکھائی تھی۔ مجیب الرحمن کسی ون ڈے انٹرنیشنل میچ میں پانچ وکٹیں لینے والے دنیا کے سب سے کم عمر کرکٹر ہیں۔ ان سے قبل یہ ریکارڈ پاکستان کے وقار یونس کا تھا۔ اِسی طرح بیس سالہ افغان کھلاڑی قیس لیگ سپنر ہیں جو کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے سکواڈ کا حصہ ہیں اور اِس سے قبل بگ بیش اور لنکا پریمیئر لیگ کھیل چکے ہیں جبکہ سولہ سال نور لیفٹ آرم سپنر (باو¿لر) ہیں جو کراچی کنگز کی سپلیمینٹری کیٹگری میں ٹیم کا حصہ ہیں۔ افغان کھلاڑیوں میں سب سے تجربہ کار نبی (آل راو¿نڈر) ہیں جو کراچی کنگز سے قبل کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی طرف سے کھیل چکے ہیں۔ بنیادی بات یہ ہے کہ افغان کرکٹرز عالمی سطح پر اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور ان کی پاکستان سپر لیگ میں موجودگی سے شائقین کی دلچسپی میں اضافہ ہوا ہے جنہیں بہترین کرکٹ دیکھنے کو مل رہی ہے جبکہ دوسری طرف افغانستان کے کرکٹ شائقین کی دلچسپی بھی ’پی ایس ایل‘ میں بڑھی ہے کیونکہ اُن کے اپنے کھلاڑی اِس میں کھیل رہے ہیں۔ پاکستان کے جن علاقوں میں پی ٹی وی کی نشریات نہیں پہنچتیں اور جن پہاڑی علاقوں میں کیبل نیٹ ورک بھی نہیں وہاں کرکٹ دیکھنے کے لئے خلائی سیارے سے موصول ہونے والی نشریات پر انحصار کیا جاتا ہے اور اِس سلسلے میں افغانستان کے 2 چینلز لمر اور وطن ہائی ڈیفینیشن کوالٹی میں پی ایس ایل کی نشریات سے پاکستان کے بالائی اور شہری علاقوں میں بھی استفادہ ہو رہا ہے‘ جہاں پشتو اُور فارسی زبانوں میں کمنٹری کے ساتھ پی ایس ایل کے مقابلے دکھائے جا رہے ہیں۔