لگتا ہے کہ موسمِ سرما کاآغاز نئے سرے سے ہوا ہے ۔سوکھے کا جوکال پڑا تھا وہ سوکڑا دور ہوا۔ہر سُو ہریالی نے ڈیرے ڈال دیئے ہیں ۔ کنو¶ں میںبھی پانی کم ہونے کے گلے شکوے تھے۔جاتی ہوئی سردی نے یو ٹرن کیا ہے ۔لحاف جو بسترو ں کی پیٹی میں ڈال دیئے گئے تھے کھینچ کر نکال لئے گئے ۔ دستانے ہاتھوں پر چڑھنے لگے ہیں۔سادہ قمیض پہننے والے نوجوانو ںنے بھی سر پر چادر لپیٹ لی ہے ۔ بوڑھے تو ویسے ہی سردی کے احساس سے کہ کسی بیماری کے نرغے میں نہ آجائیں اپنے آپ کو بارش سے پہلے بھی گرم عالم میں لپیٹ لپاٹ کرگھومتے تھے۔ مدتوں بعد مینہ برسا ہے ۔گھٹا دو دن برسی تو موسم کو یخ ہوا¶ں کا تحفہ دے گئی ۔سرِ شام ہی آسمان پر ہوا کا راج تھا اور بجلی نے بادلوں پر لال سرخ کوڑے برسانا شروع کر دیئے تھے۔ بادل چیخے اور پھر چیخ کر رونے لگے ۔یہ کالا کوا جو آج کل جھوٹ بولتا ہے ۔ دن بھر گھر کی منڈھیروں پر کائیں کائیں کر کے کسی کے آنے کی اطلاع بہم پہنچاتا ہے۔ وہ تو نہ آئے ۔ہاں بدلیاں بھیج دیں ۔میگا برسا تو خوب برسا ۔ ” سنا ہے رات بھر برسا ہے بادل“ ۔مگر ناصر کاظمی نے سنا ہے ہم نے دیکھا ہے ساری رات برستا رہا اور گڑگڑاہٹ سے دھمکتا رہا او راس نیلے گنبد کو دھمکاتا رہا۔شہریوں نے بہ امر ِ مجبوری یا ضرور ی مگر سرخ نیلی پیلی رنگ رنگیلی چھتریاں نکال لیں ۔سڑکوں پر بارش کے پانی سے پا¶ں بچاتے خیال سے چلتے پائنچے اٹھااٹھا کر رنگین چھاتے کھولے گھر کے سازو سامان کے ساتھ باہر آن موجود ہوئے۔خوبصورت منظر ہے ۔ بہار کی آمد کا اعلان تو کب کا ہوچکا ہے ۔مگر یہاں کے آثا ر بھی اپنے جوبن پر ہیں ۔ پھر بہار بھی راستے میں ہے دو ایک روز پہلے تو دن کے وقت خاصی گرمی کی حالت تھی ۔مگر پروردگارِ عالم نے اپنے رحم کے کارن پشاور پر بادلوں کی برسات کر ہی دی۔ یہ جملہ زبان زدِ عام تھا بارشیں نہیں ہو رہیں۔مگر اب ہو گئی ہیں۔دیکھیں کب تلک ہوں ۔آج ہوںتو پھر نہ ہوں ۔ یا ہوتی رہیں ۔بادلوں کا کیا ہے موسم کا اعتبار کیا۔ موسم بادلوں کی زبان سے کہتے کچھ ہیں او رکرتے کچھ ہیں۔ہمارے سر اوپر تنی ابر کی چادر ہمیں سایہ تو دیتی ہے ۔مگر اکثر یہاں کے بادل وہاں جا کر برس جاتے ہیں۔اب یہ بادل جو برس گئے کہاںکے تھے۔ مگر جہاں سے آئے‘ہمارا کام آم کھانا ہے گٹھلیاں گننا نہیں ۔قحط کا ڈر تھا او راس کے بیانیہ کاسائرن پہلے سے بجایا جا چکا تھا۔ مگر بھلاہوا کہ بادل چنگاڑتے ہوئے ہاتھی کی طرح بد مست ہو کر آخر پھٹ پڑے ۔ نومبر سے پہلے بھی جاڑے کی چاندنی کے ساتھ بادلوں کی انٹری نہ تھی۔ پریشانی کا عالم تھا۔ بارش کے لئے دعائیں مانگی گئیں۔ پھر یہ ہوا کہ جب ہم ایک بارات کے استقبال کے لئے شام گئے تیرہ نومبر جمعہ کو شادی ہال کے مین گیٹ کے باہر کھڑے تھے تواچانک بوندا باندی شروع ہوگئی ۔ مرکزی دروازے کے باہر سڑک پر یوٹرن تھا ۔یہاں یکے بعد دیگرے تین چار ایکسیڈنٹ ہوئے۔ کیونکہ ہلکی بارش میں پھسلن زیادہ ہوگئی ۔ اگلی گاڑی جو یہا ں سے مڑ جاتی تو پیچھے آنے والے موٹر سائیکل سوار بریک لگاتے ہوئے پھسلتے او رٹکرا کر دور جا گرتے ہمارے لئے یہ موڑ اس وقت سرکی ٹیڈی کے باہر برمودہ ٹرائینگل بن گیا ۔جہاں پراسراریت میں سالم بحری جہاز غائب ہو جاتے ہیں بلکہ اوپر اڑتے ہوائی جہاز بھی سمندر کے اس پورشن کے اوپرجلتے انگارے کی طرح پانی میں گر جاتے ۔یہ بہار کا بادل ہے ۔اسی طرح گڑگڑاہٹ سے برستا ہے ۔کبھی برسے کبھی رک جائے اور کبھی چل پڑے ۔یہی کیفیت ہے ۔ ہر موسم کے ہر ماہ کے ابرو باراں کی اپنی شکل و شباہت اور اپنے آثار اپنی علامات ہوتی ہیں۔ جن کو بڑے بوڑھے خوب سمجھتے ہیں۔لیکن سو شکر ہے کہ اب فصلو ں کو خاصا پانی مل گیا ہے ۔اب ہریالی جو موقوف تھی مزید ابھر کر سامنے آئے گی۔ بادل تو خوب گرجتے ہیں ۔مگر کم کم اور وقفے سے باد ابر برسے۔ دیکھیں موسم کے پنڈورا باکس کی پٹاری میں کیاہے ۔سنا تھا کہ جو گرجتے ہیں وہ برستے نہیں مگر یہ تو برسے بلکہ چھم چھما چھم برس گئے ہیں۔ادھورے خواب والے اپنے ادھورے خوابوں کے لئے پریشان ہیں ۔کیونکہ” تیز بارش سے زمیں پر بلبلے بنتے رہے ۔ اور میں اپنے ادھورے خواب میں کھویا رہا“۔ بلبلے بنتے ہیںتو اگلے ہی لمحے ان کے ٹوٹ کر بکھر جانے کا پروانہ جاری ہو جاتا ہے ۔پروین شاکر کی آواز کانوں میں رس گھول رہی ہے ” عکسِ خوشبو ہوں بکھرنے سے نہ روکے کوئی ۔او ربکھر جا¶ں تو مجھ کو نہ سمیٹے کوئی“۔جب موسم کی ہریالی میں بندہ بکھر بکھر جائے تو خواہش ابھرتی کہ ا ب مجھے کوئی نہ سمیٹے اور اگر کوشش کر ے تو سمیٹ نہ پائے ۔ اس بارش کے بعد ظاہر ہے کہ جب رک جائے اور مطلع چھٹ جائے تو موسم کی یخی کچھ دنوں برقرار رہے گی ۔مگرپھر سے گرمی کاموسم مداخلت کر کے فضا کو ہتھیانے کی کوشش کرے گا۔اب کی کیفیات بہت نشیلی ہیں۔ ابر نے سڑکوں کو دھول سے صاف کردیا ہے ۔ درختوں اور سڑک کنارے لگے ہوئے پودے دُھل کر نکھر گئے ہیں ۔گرم چائے یخنی حلوہ خشک میوہ پھر وہ بھی بستر میں دبک کر کھانے کے دن ہیں۔