کرم میں بھی دھاندلی ہوئی، دوبارہ الیکشن کرایا جائے، فضل الرحمن

پشاور:جمعیت علما اسلام (ف)کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کرم ایجنسی میں قومی اسمبلی کی نشست پر ہونے والے انتخابات میں دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ قومی اسمبلی کے انتخابی حلقے کرم ایجنسی اور ڈسکہ میں دھاندلی کے ذریعے نتائج تبدیل کیے گئے جو کسی قیمت پر قابل قبول نہیں۔

 الیکشن سے قبل ہی کرم ایجنسی میں 600جعلی ووٹ پوسٹل ووٹ پکڑے گئے اور وہ ثابت ہوچکے،ہم انتخاب کے نتائج کو تسلیم نہیں کرسکتے،ایسے کوئی شواہد نہیں ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل ہے، سینٹ الیکشن میں حکومت کے لئے سرپرائز یہی ہوگا کہ ہم کامیاب ہوں گے۔

 سینٹ الیکشن کا اسلام آباد مارچ سے کوئی تعلق نہیں، طے شدہ فارمولے کے تحت 26مارچ کو قافلے اسلام آباد کی طرف جائیں گے۔

جمعرات کوپشاور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے نتائج روکے ہوئے ہیں اور اس پر انہیں حقیقت پسندانہ انداز کے ساتھ اپنا فیصلہ صادر کرنا چاہیے اور اس الیکشن کو منسوخ کردینا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن سے قبل ہی کرم ایجنسی میں 600جعلی ووٹ پوسٹل ووٹ پکڑے گئے اور وہ ثابت ہوچکے ہیں، اس کے بعد پی ٹی آئی کے امیدوار کو نا اہل قرار دینے کے بجائے انہیں انتخاب میں حصہ لینے دیا گیا اور تیسرے نمبر پر آنے والے کو پہلے نمبر پر لایا گیا۔واضح طور پر دھاندلی ہوئی ہے اور موقع پر موجود پولنگ افسر یا تو اس میں ملوث ہیں یا بے بس، ہم انتخاب کے نتائج کو تسلیم نہیں کرسکتے۔

فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے نوٹس لینے کے بجائے ضمنی انتخاب کے نتائج روکے ہوئے ہیں، الیکشن کمیشن کو اپنا فیصلہ سنانا چاہیے، دھاندلی دھاندلی ہے جس سطح پر بھی ہو، الیکشن کمیشن کو چاہئے کہ وہ دونوں حلقوں میں دوبارہ انتخاب کرائے۔انہوں نے کہا کہ جنوبی وزیرستان میں قبائلی جنگ جاری ہے، خونریزی ہورہی ہے جس میں 5افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔

جے آئی یو سربراہ کا کہنا تھا کہ جنوبی وزیرستان میں قبائلی جنگ جاری ہے، خونریزی ہورہی ہے جس میں 5افراد ہلاک ہوچکے ہیں قومی اسمبلی اور اس میں مزید اضافے کا خطرہ ہے۔ان کا کہنا تھا کہ وہاں موجود انتظامیہ یا تو بے بس ہے یا سمجھتی ہے کہ قبائل آپس میں لڑے تاکہ ہمیں جن علاقوں پر جنگ ہے اس پر قبضہ کرنے کا موقع مل سکے۔

انہوں نے بتایا کہ جمعیت علما اسلام (ف)فاٹا کے امیر کو ہدایت دوں گا کہ تمام قبائل کا جرگہ بلایا جائے اور مسئلے کے حل کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ فاٹا کے انضمام کے بعد وہاں نہ کوئی ہرانا قانون ہے اور نہ کسی نئے قانون کی عمل داری، وہاں کے لوگ پریشان زندگی گزار رہے ہیں۔

 قبائل میں جب زمینوں کی تقسیم ہوگی تو گھر گھر پر لڑائی ہوں گی اور خونریزی ہوگی۔انہوں نے بتایا کہ وہاں کی خصوصی حیثیت کو دوبارہ بحال کرنے کے لیے سپریم کورٹ میں ایک رٹ دائر کی گئی ہے جس میں دعوی کیا گیا ہے کہ یہ آئین کے خلاف قدم اٹھایا گیا ہے۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس پر باقاعدہ سماعت کا جلد آغاز کیا جانا چاہیے تاکہ اس مسئلے کا عدالتی حل سامنے آسکے۔

سربراہ پی ڈی ایم نے کہا کہ سینیٹ انتخابات میں خفیہ ووٹنگ کے حوالے سے ججز کے ریمارکس میں آئین سے متعلق کہا گیا کہ آئین خاموش ہے، جس جگہ آئین خاموش ہو وہاں پارلیمنٹ تشریح کرتی ہے، عدالت کو خود کوفریق نہیں بنانا چاہیے، ایسے کوئی شواہد نہیں ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل ہے، 2018الیکشن کے بارے میں جو موقف ہے اس پر قائم ہیں، پی ڈی ایم کا انتخابی اتحاد کے حوالے سے کہنا قبل ازوقت ہے، سینٹ الیکشن میں حکومت کے لئے سرپرائز یہی ہوگا کہ ہم کامیاب ہوں گے، سینٹ الیکشن کا اسلام آباد سے مارچ سے کوئی تعلق نہیں، طے شدہ فارمولے کے تحت 26 مارچ کو قافلے اسلام آباد کی طرف جائیں گے۔