پاکستان کی سیاسی و انتخابی تاریخ میں اتفاق رائے اِس نکتے پر ہمیشہ رہا ہے کہ کوئی بھی فریق دوسرے کی رائے اور مو¿قف سے اتفاق نہیں کرتا۔ رواں ہفتے کا ضمنی انتخابی نتیجہ (این اے 75‘ ڈسکہ) سے نئے اختلاف نے جنم لیا ہے حالانکہ انتخاب کا مقصد حقیقت واضح کرنے کے لئے ہوتا ہے جبکہ پاکستان میں انتخابات سے قبل اور بعد کی صورتحال پر ایک جیسی غیریقینی سایہ فگن رہتی ہے۔ اُنیس فروری کے ضمنی انتخاب میں مبینہ دھاندلی سے متعلق جب ایک عذرداری الیکشن کمیشن کے سامنے پیش ہوئی تو پچیس فروری کو جاری ہوئے مختصر فیصلے میں ”صاف شفاف‘ منصفانہ انتخاب“ نہ ہونے پر ان انتخابات کو کالعدم قرار دیتے ہوئے حکم دیا کہ پورے حلقے میں اٹھارہ مارچ کو دوبارہ انتخابات کروائے جائیں اُور یہی حزب اختلاف کا مطالبہ بھی تھا۔ پاکستان کی انتخابی تاریخ میں کسی انتخابی عذرداری پر اِس قدر جلد اور اِس قدر غیرمتوقع فیصلہ شاید ہی کبھی سامنے آیا ہو۔ ضمنی انتخاب کے دوران مبینہ دھاندلی کے خلاف دائر درخواست میں نواز لیگ کی نامزد امیدوار نوشین اِفتخار نے پورے حلقے میں دوبارہ انتخاب کا مطالبہ کیا تھا جبکہ پاکستان تحریک انصاف نے صرف اُن 20 پولنگ سٹیشنز پر دوبارہ پولنگ کی درخواست دی‘ جن کے نتائج روک لئے گئے تھے۔ الیکشن کمیشن نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ”1: لڑائی جھگڑے اور تشدد ہوا۔ 2: انتخابی فریقین کی جانب سے فائرنگ کی گئی۔ اور 3: ووٹر کو حق رائے دہی کے لئے آزادانہ ماحول فراہم نہیں کیا گیا اور اِن تین بنیادی وجوہات کو مدنظر رکھتے ہوئے الیکشن ایکٹ کی شق 9 کے تحت مذکورہ ضمنی اِنتخاب کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔ عجب ہے کہ ضمنی انتخاب کے موقع پر ہوئی فائرنگ سے 2 سیاسی کارکن جاں بحق ہوئے جبکہ پولنگ عملے کے 23 اراکین کئی گھنٹے لاپتہ رہنے کے بعد صبح چھ بجے نتائج لئے ریٹرنگ آفسر کے سامنے حاضر ہوئے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے فیصلے کے بعد چیف سیکرٹری پنجاب اور انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس کو ’فرائض سے غفلت برتنے‘ پر ذاتی حیثیت میں طلب کرتے ہوئے ہدایت کی گئی ہے کہ کمشنر گوجرانوالہ ڈویژن اور ریجنل پولیس افسر گوجرانوالہ رینج کو اُن کے عہدوں سے ہٹایا جائے اور اُنہیں مذکورہ حلقے سے متعلقہ گوجرانوالہ ڈویژن سے باہر بھیج دیا جائے جبکہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو حکم دیا گیا ہے کہ ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ ذیشان جاوید لاشاری‘ ڈسٹرکٹ پولیس افسر سیالکوٹ حسن اسد علوی‘ اسسٹنٹ کمشنر ڈسکہ آصف حسین‘ ڈی ایس پی سمبڑیال ذوالفقار ورک اور ڈی ایس پی ڈسکہ رمضان کمبوہ کو معطل کر دیا جائے اور وفاقی و صوبائی حکومتیں آئندہ مذکورہ بالا افسران کو کسی بھی موقع پر الیکشن ڈیوٹی پر مامور نہ کریں۔ اپنی نوعیت کی یہ سزائیں منفرد ضرور ہیں لیکن سخت نہیں اور جنہیں حسب ضرورت قرار واقعی بھی بنایا جا سکتا تھافیصلہ سازوں کے لئے یقینا ضمنی انتخاب کا یہ پورا منظرنامہ نہ صرف تلخ تجربہ ہے بلکہ اصلاح کا نادر موقع بھی ہے جس پر خوشگوار حیرت اور ناپسندیدہ ردعمل کا اظہار کرنے کی بجائے حاصل کردہ مختلف نتیجے کو پیش نظر رکھتے ہوئے مستقبل کی منصوبہ بندی کی جا سکتی ہے اور ہر سوال کا جواب یہی ہوگا کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا استعمال بڑھایا جائے بلکہ الیکشن کمیشن اگر چاہے تو ضمنی انتخابات میں پولنگ 100 فیصدی بذریعہ ’اِی وی ایمز‘ ممکن ہے جو شفاف رائے دہی اور رائے شماری کا نفیس‘ سستا اُور نسبتاً زیادہ قابل اعتماد طریقہ ہے۔