امریکی صدر جو بائیڈن نے ایران کے ساتھ بات چیت شروع کرنے، اس پر اقوام متحدہ کی پابندیوں کی بحالی کی کوشش نہ کرنے اور اس کے ساتھ 2015 ءکے جوہری معاہدے کی بحالی و تجدید کی خواہش کا اعلان کردیا ہے۔اپنی صدارتی مہم کے دوران اور بعد میں بائیڈن اصرار کرتے رہے ہیں کہ وہ مسٹر ٹرمپ کی طرف سے عائد پابندیوں کو صرف اسی صورت میں ختم کریں گے جب ایران جوہری پیداوار کی 2019 ءوالی حدود پر واپس آجائے یعنی جب اس نے ایٹمی معاہدے کی خلاف ورزی شروع نہیں کی تھی۔ایران کا اصرار ہے کہ امریکہ کو پہلے ایران پر سے پابندیاں ہٹانی ہوں گی جبکہ امریکہ کہتا ہے تہران کو پہلے معاہدے کی خلاف ورزی بند کرنی ہوگی۔ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ بائیڈن انتظامیہ صرف پرانے معاہدے کی بحالی کے بجائے ایران سے ایک نیا معاہدہ کرنا چاہتی ہے ۔ ایران پرانے معاہدے کی بحالی تو چاہتا ہے مگر معاہدے میں مزید امور شامل کرنے کے لئے تیار نہیں ہے 110 صفحات پر مشتمل اس ایٹمی معاہدے، جو مشترکہ جامع منصوبہ عمل کے نام سے مشہور ہے ‘جس پر ایران، جرمنی اور سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان نے جولائی 2015 ءمیں دستخط کئے تھے اور جو جنوری 2016 ءسے نافذ ہوا تھا، سے قبل امریکی انٹیلی جنس کو خدشہ تھا کہ اگر ایران چاہے تو چند ماہ میں جوہری ہتھیار تیار کرسکتا ہے۔ امریکہ معاہدہ کرکے ایران کو جوہری ہتھیار بنانے سے روکنا چاہتا تھا۔ چنانچہ معاہدے کے تحت ایران نے اپنے بیشتر جوہری پروگرام کو ختم کرنے اور بین الاقوامی معائنے کے لئے اپنی سہولیات کھولنے سے اتفاق کیا، اپنے سویلین جوہری افزودگی پروگرام میں چلنے والے سینٹری فیوجز کی تعداد و اقسام اور افزودہ یورینیم کے ذخیرے کی مقدار کو حدود کے اندر رکھنے اور اپنے جوہری ایندھن کا 97 فیصد ملک سے باہر بھیجنے پر آمادہ ہوا۔ ایران نے ایڈیشنل پروٹوکول پر عمل درآمد کرنے سے بھی اتفاق کیا جس کے تحت بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کو مختصر نوٹس پر ایران میں کسی بھی جگہ کا معائنہ کرنے کی اجازت دی گئی۔ اس کے بدلے میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے ایران سے اربوں ڈالرز کی بین الاقوامی پابندیاں ختم کردیں اور اس کے سو ارب ڈالرز کے منجمد اثاثے بحال کردئیے۔لیکن 2018 ءمیں سابق امریکی صدر ٹرمپ نے اس معاہدے کو ایران کے حق میں یک طرفہ قرار دیتے ہوئے ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کردیں۔اسرائیل کی خوشنودی کے لئے کئے جانے والے ٹرمپ کے اس غیر حکیمانہ فیصلے نے ایٹمی عدم پھیلاو¿ کو زک پہنچائی، مشرق وسطیٰ میں کشیدگی بڑھائی اور امریکہ کو اپنے یورپی اتحادیوں اور سلامتی کونسل کے باقی تمام مستقل ارکان سے الگ تھلگ کردیا۔اس معاہدے سے قبل سب، خصوصاً تیل کی برآمد پر، عائد پابندیوں نے ایرانی معیشت کو شدید متاثر کیا۔ صرف 2012 ءسے 2014ءکے درمیان اسے سو ارب ڈالرکا نقصان ہوا۔ پابندیاں ختم ہوئیں تو افراط زر کم ہوا اور تیل کی برآمدات بڑھ گئیں۔ مثلاً ایران یومیہ 2.1 ملین بیرل تیل برآمد کرنے لگا۔ تیل کی برآمدات پر 2018 میں دوبارہ پابندیاں عائد ہوئیں تو 2020 کے وسط تک یہ پھر صرف 3 لاکھ ہزار بیرل یومیہ پر آگئیں۔ واضح رہے ایران کی معیشت کا اسی فیصد انحصار تیل کی تجارت پر ہے۔ پابندیوں کے ساتھ ساتھ کورونا وائرس نے بھی ایرانی معیشت کو زک پہنچائی۔ آخری بار ایران کی خام ملکی پیدوار کی نمو 2017 ءمیں ہوئی تھی۔ 2018 ءمیں پابندیوں سے پہلے ایران کے زرمبادلہ کے ذخائر 121.6 بلین ڈالر تھے جو 2019 ءمیں 12.7 بلین ڈالرز اور 2020 ءمیں 8.8 بلین ڈالرز پر آگئے۔2018 ءمیں امریکہ معاہدے سے دست بردار ہوا تو ایران نے 2019 ءمیں کم افزودہ یورینیم کے ذخیرے کو مقررہ حد سے بڑھانا شروع کردیا۔ 20-2019 ءمیں ایک ایرانی جنرل اور سائنسدان پر حملے کے بعد ایران نے یورینیم افزودگی کی رفتار بڑھادی اور آئی اے ای اے کے انسپکٹرز کی جانب سے فوری معائنے پر پابندی کا اعلان کیا۔ پچھلے سال ایرانی پارلیمنٹ نے ایک قانون پاس کیا جس کے تحت پابندیاں ختم نہ ہونے کی صورت میں ایرانی حکومت 23 فروری سے ایڈیشنل پروٹوکول پر عملدرآمد ختم کرنے کی پابند بنائی گئی تاہم ایران نے بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے ساتھ تین مہینے کے لئے ایک اور معاہدہ کرلیا ہے جس کے تحت آئی اے ای اے ”تین ماہ تک ضروری تصدیق اور نگرانی کی سرگرمیاں جاری رکھے گی“۔ اس نئے معاہدے اور جو بائیڈن کی آمد سے اس مسئلے کے سفارتی حل کی امید پیدا ہوگئی ہے کیونکہ ایران کو اقتصادی پابندیوں سے نجات کی ضرورت ہے اور بائیڈن کو بھی معلوم ہے ایران پرنئی پابندیاں لگانے میں اسے یورپی اتحادیوں کی حمایت نہیں مل سکے گی 2015ءکے ایٹمی معاہدے کے لئے بھی ایران اور امریکہ میں بات چیت 2008ءمیں شروع ہوئی تھی اور سات سال بعد معاہدہ ہوا تھا۔ اب بھی یہ مذاکرات اور معاہدہ ہونے میں وقت لگے گا لیکن راستہ ایک ہی ہے۔ احترام، اعتماد اور مفاہمت کے جذبے کے ساتھ مذاکرات۔