سکول سے چھٹی ہو کر آنے والی بچی کے بستہ کو اس کے والد نے اٹھا رکھاتھا۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ بستہ کا بوجھ اتنا زیادہ تھا کہ بچی کے ناتواں او رننھے ہاتھ اس خواہ مخواہ کے بوجھ کو نہ اٹھاسکنے پر مجبور تھے۔میں کہتا ہوں کہ کتابیں او رکاپیاں کیوں زیادہ کر دی جاتی ہیں ۔ معاشرے پراحسان کرنے کے الٹ یہ کتابیں الٹا بوجھ بن گئی ہیں۔باہر ملکوں میں تو ایسا نہیں ہوتا ۔وہاں تو تیسری کلاس تک کسی کو کوئی کتاب پڑھائی نہیں جاتی ۔ ان کو سکول میں بھی کھیلنے کا بھرپور موقع دیا جاتا ہے ۔ اس لئے کہ یہ کتابوں کو بوجھ نہ سمجھیں ۔مگر ہمارے ہاں تو کتابوں کو بوجھ سمجھنے کا بھرپور موقع عنایت کیا جاتا ہے ۔دو بہنوں کو دیکھا اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے ایک بستہ اٹھا رکھا تھا۔ وہ گھر کو رواں دواں تھیں۔ ایک کے پاس اس لئے بستہ نہ تھا کہ وہ ایک کلاس اوپرتھی۔پھر اس کے سکول امتحانات ہو رہے تھے۔ اس نے صرف کلپ بورڈ اٹھایا تھا۔ امتحانی گتے والے ہاتھ کو چھوڑ کر خالی ہاتھ سے چھوٹی بہن کی مدد کررہی تھی۔صبح کے وقت بچہ اپنی گاڑی سے اترتا ہے ۔اس وقت ڈرائیور اس کا بستہ اٹھا کر بچہ کو سکول کے مین گیٹ کے اندر چھوڑ دیتا ہے ۔ گیٹ کے اندر کا عملہ اس بستہ کو اٹھا کر اس کی کلاس تک پہنچاتا ہے ۔اس کا تو صاف مطلب ہے اور اس میں کسی کو کیا شک و شبہ کہ جب وہ بچی یا بچہ اپنی جسمانی طاقت سے یہ بوجھ اٹھا نہیں سکتے تو ان کے دماغ میں اتنی طاقت کہاںہوگی کہ وہ ان موٹی کتابوں میں لکھی ہوئی معلومات کو پڑھ ہی سکیںکیونکہ صحت مند جسم میں صحت مند ذہن ہوتا ہے ۔ اگر بالفرض پڑھ لیں تو سمجھ بھی سکیں ۔ جو کتابوں کا بیوڑا انھوں نے اٹھا رکھا ہوتا ہے اس کو پڑھنے او رسمجھنے کے لئے مسلسل ایک سال کی پڑھائی بھی ناکافی ہے ۔ بلکہ ان کو ان گھٹوں کو کھول کر پڑھنے کے لئے تین سال چاہئیں ۔ مگر پھر بھی کسی کے پاس ضمانت نہیں کہ کیاوہ ان کتابوں کوسمجھ بھی پائیں گے کہ نہیں ۔اس بستہ میں جو مواد ٹھونسا گیا ہوتا ہے وہ بچوں کے دماغ تک کیسے پہنچے گا۔ جو کچھ کوئی کر سکتا ہے کر رہاہے ۔اس کو روکنے ٹوکنے والا کوئی نہیں ۔اب ضلعی افسران کس کس سکول کا دورہ کریں گے اور کس کس بچے کو چیک کر کے آگے رپور ٹ ارسال کریں گے۔ہمارے معاشرے کی حالت جب یہ ہو تو افسوس والے ہاتھ ملنے کے علاوہ ہمارے پاس بچتا کیا ہے ۔پورے ملک میں ایک نصاب ہو۔ پورے ملک کی ہر کلاس کا نصاب ہلکا پھلکا ہو خواہ کوئی کلاس ہو ۔تاکہ اس کتاب کو اگر ایک بار ختم کیاجائے تو ٹیچر وہی کتاب دوبارہ اور سہہ بارہ پڑھائے ۔تاکہ جو سبق پڑھا وہ بچوں کے ذہن میں بھی تو بیٹھ جائے۔ وگرنہ تو گزشتہ پچاس سال سے یہی ہو رہاہے ۔بستہ کا وزن روز بروز زیادہ ہو رہاہے ۔ مگر دوسری طرف بچوں کی قابلیت میں کوئی تیزی نہیں آ رہی۔ الٹا وہ کتابیں پڑھ کربھی ویسے کے ویسے ہیں جیسے کے پہلے تھے۔ ہمارے ہاں کسی سائنسدان کے سامنے نہ آنے کی یہی تو وجہ ہے ۔اگر کچھ تباہ ہو رہا ہے بچہ کا مستقبل تباہ ہو رہا ہے۔ ان بچوں کے والدین ایک ایک کرکے نمبر واری روپے پیسے کے لحاظ سے بربادی کے گڑھے میں گرتے چلے جاتے ہیں۔ ۔ پھر اوپر والی کلاسوں کی طرف آئیں تو اس مہنگا ئی کے دور میں جہاں دوسری اشیا ءمہنگی ہوئی ہیں وہاں کلاسو ںکی ایڈمشن فیس اور ماہانہ فیس اور سمسٹر کی فیس سب کچھ زیادہ ہو چکا ہے ۔پھر لاکھوں روپے خرچ کر کے بھی ایک شہری جب اپنی تعلیم مکمل کرتا ہے تو اس کو کچھ ہاتھ نہیں آتا ۔کورس کچھ اور ہوتا ہے ۔مگر وہ خجل خوار ہو کر چاہتا ہے کہ یا ر بس کوئی بھی نوکری مل جائے مجھے قبول ہے ۔اکثر تو کلرک بن جانے پر راضی بہ رضا ہوتے ہیں ۔پھر ایسے بھی ہیں کہ آفس بوائے کی پوسٹ کے لئے انکار نہیںکریں گے۔ پھراگر پرائیویٹ ادارے میں اسے نوکری مل بھی جائے تو پندرہ ہزار روپے ماہانہ پر وہ ہتھیار ڈال دیتا ہے کیونکہ یہاں تو اچھی اور مہنگی پڑھائی کا تصور اچھی نوکری کے حاصل کرنے سے ہے ۔مگر جب نوکری نہ مل پائے تو اس کو اپنے ماں باپ کے لگائے ہوئے لاکھوں روپے ضائع ہوتے محسوس ہوتے ہیںاس تنخواہ کے پانچ سو روپے روزانہ سے اچھا ہے وہ پڑھا ئی نہ کرتا ۔لاکھوں روپے تعلیمی اداروں کے نہ بھرنے والے پیٹ میں نہ ڈالتا کیونکہ دیہاڑی دار مزدور کو بھی تو آٹھ سو روپے روزانہ ملتے ہیں۔اس نے تو لاکھوں روپے خرچ نہیں کیا تاکہ سیکھ سکے کہ اینٹوں کا بوجھ کیسے اٹھاتے ہیں خواہ وہ بوجھ سکول کے بستہ کا ہے ۔سنتے آئے ہیں سن رہے ہیں۔ دیکھتے آئے ہیں اور دیکھ لیں گے ۔ کہا گیا ہے کہ پورے ملک میں ایک نظامِ تعلیم ہوگا۔ مگر بستہ کے بوجھ کو بھی تو کم کریں پھر ہم جانیں ۔