خیبر پختونخوا کی حکومت نے عوام کو صحت کی بنیا دی سہو لیات دینے کیلئے دیہات کے اندر یا دیہاتی علاقوں میں قائم چھوٹے ہسپتالو ں کو ہفتے کے سات دن 24گھنٹے فعال رکھنے کیلئے ایک پائلٹ پرا جیکٹ کی منظوری دی ہے پر اجیکٹ کے تحت 82بیسک ہیلتھ یو نٹ اور 50رورل ہیلتھ سنٹر میں سہو لیات فراہم کی جائینگی پرا جیکٹ کی کا میابی کے بعد اس سلسلے کو دوسرے دیہات کے چھوٹے ہسپتالوں تک پھیلا یا جا ئیگا حکومت کے اس فیصلے سے معلوم ہو تا ہے کہ عوام کو علا ج معالجہ کی سہو لیات دینے میں نا کا می کے گھمبیر مسئلے کا سرا حکومت کے ہاتھ آگیا ہے اب تک مسئلہ یہ تھا کہ کہاں سے بات شروع کی جا ئے اب حکومت نے بیل کو سینگوں سے پکڑ لیا ہے اب یہ بیل چاروں شا نے چت گرے گا اور حکومت کی تیز دھا ر چھری اس کی گردن پر ہو گی یعنی مسئلہ دھیرے دھیرے حل ہونے کی طرف جا ئیگا 1970کے انتخابات میں منتخب ہو نے وا لی اسمبلی نے بڑے بڑے کا م کئے اس وقت کی صو با ئی حکومت نے کئی انقلا بی اقدامات اُٹھا ئے، دیہاتی علاقوں میں چھوٹے ہسپتالوں کا جا ل بچھا نا اُس وقت کی حکومت کا بڑا کار نا مہ تھا اگر 1977ء کے بعد ان ہسپتا لوں کو لاوارث نہ چھوڑدیا جاتا تو اب تک صو بے کی 80 فیصد آبادی کو گھر کی دہلیز پر علاج معا لجہ کی سہو لتیں مل چکی ہو تیں اس وقت ہر یو نین کو نسل میں بی ایچ یو اور 3یونین کونسلوں کیلئے آر ایچ سی کی جو عما رتیں نظر آتی ہیں ان عما رتوں میں ڈاکٹر‘ایکسرے‘ لیبارٹری اور داخل مریضوں کے علا ج کی آسانیاں ہوتیں تو عام بیماری یا حادثات کی صورت میں ڈی ایچ کیو ہسپتالوں پر مریضوں کا ر ش کم ہوتا، اگر ڈی ایچ کیو ہسپتا لوں میں سی ٹی سکین‘ایم۔آر۔ آئی اور دیگر سہو لیات دستیاب ہوتیں تو صو بائی دارلحکومت کے بڑے ہسپتا لوں پر مریضوں کا رش بہت کم ہو جاتا والی سوات میاں گل عبد الحق جہانزیب نے 1950ء کے عشرے میں ریاست سوات کیلئے اس طرح کی منصو بہ بند ی کی تھی لو گوں کو علا ج معا لجہ کی بنیادی سہو لیات گھر کی دہلیز پر حا صل ہو ں آج 70سال بعد بھی سوات کا دورہ کرنے والا دیکھ سکتا ہے دور دراز دیہات میں چھوٹے ہسپتالوں کی عمارتیں نظر آ جاتی ہیں والی صاحب کے زما نے میں ان ہسپتالوں میں ڈاکٹر بھی ہو تے تھے علا ج بھی ہو تا تھا والی سوات نے ایسی منصو بہ بند ی کی تھی کہ 50کلو میٹر کے دیہاتی علا قے میں ایک چھوٹا ہسپتال ایسا ہو جہاں تما م سہو لیات میسر ہوں بحرین‘ڈگر اور الپوری سے مریضوں کو پشاور لے جا نا نہ پڑے اگر ڈاکٹر نے بڑے ہسپتال لے جانے کا مشورہ دیا تو سیدو شریف میں دو بڑے ہسپتال دستیاب ہو ں یہ علا ج معا لجہ کی سہو لیات کا بہترین ماڈل تھا والی صاحب نے سوات کے نوجوانوں کو سکا لر شپ دے کر لا ہور بھیجا اور اس بات کو یقینی بنا یا کہ ہر سال 10ڈاکٹر فارغ ہو کر آ جا ئیں 10 نئے جوان لا ہور میں داخلہ لے لیں 1970کے عشرے میں ہمارے صو بے کیلئے بی ایچ یو اور آر ایچ سی کے نا م سے چھوٹے ہسپتالوں کی جو منصوبہ بندی ہو ئی تھی وہ اعلیٰ پائے کی منصوبہ بندی تھی بعد میں آنے والی حکومتوں نے اس پر عمل نہ کیا اور منصوبہ ادھورا رہ گیا شکر ہے کہ 45سال بعد موجودہ حکومت کو خیال آیا اور دیہاتی علا قوں کے چھوٹے ہسپتالوں کو فعال کرنے پر کا م کا آغا ز ہوا منصو بہ یہ ہے کہ پہلے مرحلے میں افراد ی قوت پر توجہ دی جائیگی میڈیکل ٹیکنیشن اور آیا کی 264 آسا میاں پید ا کی جا ئیں گی ان آسامیوں پر یقینا تر بیت یا فتہ افراد کی تقرری ہو گی گو یا افرادی قوت مہیا ہو نے کے بعد ہسپتا لوں کے دروازے کھل جائینگے اور 24گھنٹے کھلے رہیں گے پائلٹ پراجیکٹ کیلئے جن اضلاع کا انتخا ب کیا گیا ہے ان میں پشاور‘ چارسدہ‘ مر دان‘ بنو ں‘ایبٹ اباد‘ ما نسہرہ‘ ڈیرہ اسماعیل خان‘ہری پور‘ بٹ گرام‘کو ہاٹ‘لکی مروت‘ملا کنڈ‘دیر اپر‘دیر لوئر‘ہنگو‘ بو نیر اور سوات شا مل ہیں ابتدائی طور پر میڈیکل ٹیکنیشن سکیل 12 کی 132آسا میاں اور آیا سکیل 1کی 132 آسا میاں منظور کی گئی ہیں 34اضلا ع میں سے جو 17اضلا ع رہ گئی ہیں ان کو اگلے مرحلے میں آسامیاں دی جائینگی اگر اس پر عمل ہوتا رہا تو اگلے 5 سالوں میں چھوٹے ہسپتا لوں کا چھوٹا مسئلہ حل ہو جا ئیگا آ گے بڑا مسئلہ رہ جا ئیگا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ آر ایچ سی میں ایکسرے، لیبارٹری اور 10 بستروں کا وارڈ فراہم کر کے چار ڈاکٹروں کی آسامیاں منظور کی جا ئیں بی ایچ یو کیلئے لیبارٹری‘ ایکسرے اور 5بستروں کا وارڈ دیدیا جائے اس کو چلا نے کیلئے دو ڈاکٹروں کی آسا میاں منظور کی جائیں اس صورت میں ہماری حکومت 2021ء میں دیہاتی یو نین کونسلوں کے عوام کو وہ سہو لیات دے سکیں گی جو والی سوات نے 1951ء میں عوام کو دے رکھی تھی۔